میرا موضوع تو نیرہ نور ہے مگر سیلاب کے دکھ ابھی باقی ہیں اور ظلمی سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی جاری ہیں۔ محکمہ موسمیات نے 15 سے 25 ستمبر تک ملک میں نئے سرے سے بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ ستمبر بھی ستمگر بن گیا ہے۔�
سیلاب اور بارشوں نے ہر شخص کو مغموم کر دیا ہے۔ عظیم ہیں وہ لوگ جو دکھ کی اس گھڑی میں متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔ ریاست ماں ہوتی ہے مگر ریاست کو چلانے والوں نے اولاد بارے نہیں سوچا۔ حکومت کی بے حسی اپنی جگہ مگر سیاسی جماعتوں نے بھی متاثرین کی مدد نہیں کی۔ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے مگر متاثرین کے نام پر امداد بھی بہت اکٹھی ہوئی ہے مگر وسیب کے متاثرین کی مدد کے حوالے سے ان کا کوئی بڑا کام دیکھنے میں نہیں آیا۔ نیرہ نور کا کمال یہ تھا کہ وہ اچھی شاعری کا انتخاب کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ غالب، ناصر کاظمی، ابن انشاء اور فیض احمد فیض اور بہزاد لکھنوی کا کلام نہایت دلکش انداز سے گایا۔
نیرہ نے ارشد محمود کی کمپوزیشن میں فیض کا جو کلام گایا، وہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ٹی وی کے ذریعے فلم والوں کی نظر میں آئیں تو انہوں نے بھی رابطہ کیا اور پلے بیک سنگنگ کیلئے تیار کرلیا۔ 92 نیوز سمیت ملک کے دیگر اخبارات میں بہت کچھ لکھا گیا مگر سب سے زیادہ معلوماتی اور تحریر اسلم ملک کی پڑھنے کو ملی۔ نیرہ نور کی آواز میں نسوانیت اور لطافت کے ساتھ ساتھ سوزو گداس اتنا تھا کہ سننے والا محو ہو جاتا۔ نیرہ کے پہلے فلمی گانے ’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھادوں، ساری عمر بتادوں‘‘ نے ہی دھوم مچادی،فلم گھرانہ کا یہ گیت کلیم عثمانی نے لکھا اور موسیقی ایم اشرف کی تھی۔ 1973میں ہی فلم ’’آس‘‘ کیلئے مسرور انور کا لکھا گیت ’’بول ری گڑیا بول ذرا، چپ رہتے تجھے برسوں بیتے‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ اس کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی۔ اس کے بعد اسی سال فلم پردے میں رہنے دو کیلئے مسعود رانا کے ساتھ دوگانا، جانے سے پہلے اتنا بتادو پھر کب ملوگی، گایا۔
پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ گیارہ سال پہلے انہوں نے باقاعدہ نہ گانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے کچھ معروف نغمے، غزلیں اور گیت :تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں پلکیں بچھادوں۔وہ جو ہم میں قرار تھا۔چلو پھر سے اجنبی ہو جائیں۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔روٹھے ہو تم، تم کو کیسے منائوں پیا، بولونا۔احمد ندیم قاسمی کہتے تھے، آزاد نظم کو نیرہ نور سے بہتر کوئی نہیں گا سکتا، وہ شاعری اور اس کے مفہوم سے پورا انصاف کرتی ہیں۔ انہیں ان کی منفرد گائیکی پر ’’بلبل پاکستان‘‘ کہا جاتا تھا۔ 1973 میں نگار ایوارڈ اور 2006 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا گیا۔ سالانہ آل پاکستان میوزک کانفرنسز میں انہیں تین بار گولڈ میڈل دئیے گئے۔ نیرہ نور کی شادی اپنے کلاس فیلو شہر یار زیدی سے ہوئی، وہ بھی گلوکار رہے، بعد میں ٹی وی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔
ان کے بیٹے جعفر زیدی اور ناد علی زیدی بھی عمدہ گاتے ہیں۔عابد علی بیگ صاحب یاد دلاتے ہیں کہ شعیب ہاشمی کے پروگراموں میں ایک سادہ سی لڑکی چادر اوڑھ کر فرش پر بیٹھ کر گیت یا غزل گایا کرتی تھی اس کی آواز و انداز نے لوگوں کی توجہ فوراً حاصل کرلی۔ بہت دنوں کے بعد وہ لڑکی کسی پروگرام میں کھڑے ہوکر گاتی ہوئی نظر آئی تو دیکھنے والوں کو خوش گوار حیرت ہوئی۔ نیرہ نور کا شاندار پس منظر وہ ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں وہ 3 نومبر 1950 کو آسام کے شہر گوہاٹی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندان تاجر پیشہ تھا جو امرتسر سے گوہاٹی جا بسا تھا۔ نیرہ کے والد میاں نور احمد مسلم لیگ کے فعال رکن تھے۔ قائد اعظم گوہاٹی میں ان کے گھر ٹھہرے تھے۔ قائد اعظم کا بستر اور استعمال میں آنے والی دوسری اشیاء نیرہ کی والدہ نے محفوظ رکھی ہوئی ہیں۔
نیرہ کی والدہ اور بھائی بہن 1957/58 میں پاکستان آئے۔ والد جائیداد کی وجہ سے گوہاٹی رہے اور 1993 میں آئے.نیرہ نے موسیقی کی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن بچپن میں وہ کملا جھریا اور کانن دیوی کے مذہبی گیتوں (بھجن) اور بیگم اختر (اختری بائی فیض آبادی) کی ٹھمری اور غزل گائیکی سے بہت متاثر تھیں۔ نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا ’’ہم دیکھیں گے‘‘ فیم موسیقار پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے 1968 میں انہیں نیشنل کالج آف آرٹس کے سالانہ عشائیہ میں گاتے سنا تو بہت متاثر ہوئے اور اسی وقت کہا کہ یہ مستقبل کی بڑی سنگر ہیں۔ اُن کی بات حقیقی معنوں میں سچ ثابت ہوئی۔ پروفیسر اسرار انہیں ریڈیو پاکستان لے گئے اور نوجوانوں /طلباء کے پروگرام میں موقع دلایا۔ نیرہ کے آگے بڑھنے میں پروفیسر اسرار کا بہت ہاتھ ہے۔ 1969 میں ریڈیو پاکستان میں نئی آوازوں کیلئے آڈیشن ہوئے۔ منصفین روشن آراء بیگم، استاد سلامت علی خان اور استاد امانت علی خان تھے۔
نیرہ نے لتا کا گانا چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے۔ روشن آراء بیگم نے بہت پسند کیا اور کہا ’’ماشاء اللہ تمہارے گلے میں بہت مرکیاں ہیں، کون استاد ہیں، نیرہ نے جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک گراموفون تھا، جس پر میں کملا جھریا، کانن دیوی اور بیگم اختر کے ریکارڈ باربار سنتی اور ان کے ساتھ ساتھ گانے کی کوشش کرتی تھی، جو کچھ سیکھی ہوں، سن سن کر سیکھی ہوں۔ 1971میں نیرہ نے پاکستان ٹیلی ویژن پر شعیب ہاشمی کے پروگرامز اکڑ بکڑ، ٹال مٹول اور سچ گپ سے آغاز کیا اور آگے چل کر اُن کی آواز میں مزید نکھار اور رچائو پیدا ہوا اور نیرہ نور نے بہت جلد سننے والوں کا ایک حلقہ پیدا کر لیا.
اور پھر ریڈیو کی لہروں پر یہ آواز پوری دنیا میں چلی گئی۔ نیرہ نور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اپنی خوبصورت آواز اور خوبصورت یادوں کے حوالے سے۔ اچھا فنکار قومی سرمایہ ہوتا ہے۔ اچھے فنکار کیساتھ وہ اچھا انسان بھی ہو تو سونے پے سہاگہ ہو جاتا ہے۔ بابا بلھے شاہ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا ’’بلھے شاہ اساں مرنا نا ہیں، گور پیا کوئی ہور‘‘۔
تبصرہ لکھیے