انسان سوچ و احساس پر بنا ہے، اسی سے اس کی زندگی عبارت ہے، اسی واسطے حواس سے مزین کیاگیا. یہ چھوتا ہے، محسوس کرتا ہے، دیکھتا ہے، سنتا ہے، سونگھتا ہے، ذائقے کا احساس لیتا ہے، اور کیفیت دے سکتا ہے، کیفیت پا سکتا ہے.
انسان کی کیفیات میں خوشی اور غم اس کی دو انتہائیں ہیں. ایک کی تلاش زندگی ہے، دوسرے سے فرار اس کی خواہش، یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے، اس کی شخصیت کا جزو، اور اس کی طلب کا ماخذ ہے. چونکہ انسان میں خوشی کی طلب ہے تو اس کی رسد بھی عین ممکن ہے کہ جہاں طلب ہوتی ہے وہاں رسد ہو ہی جاتی ہے. خوشیاں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک فطری اور دوسری خود کشیدہ. ہر دو کا انداز و احساس الگ ہے. فطرت کے حسین مناظر کو دیکھنے کی اپنی خوشی اور فطرت کو کینوس پر سجالینے کی اپنی خوشی.
فطری خوشی فطرت پر ہی ہے کہ فطرت بے ساختہ ہوتی ہے. یہ اپنے نظام پر ہے. سخت گرمی میں دھول اُڑاتی، لو کی دھونکنی دیتی ہوا، تپتی زمین کہ پرندے بھی چھاؤں سے نکلنے سے کترا رہے ہوں. یہ بھی فطرت کا منظر ہے. اور اس میں اچانک اُفق سے آتی کالی گھٹا، بارش کے پہلے قطروں سے اس تپتی زمین سے گیلی گرم باس لیتی مہک، گرم ہوا جو بتدریج نمی سے بوجھل ہوتی، گرم سے نیم گرم و ٹھنڈ لیتی، درختوں کا اس اچانک رحمت پر لہرانا اور رم جھم مینہ برسنے کی ابتدا، یہ بھی فطرت ہے.. اس کی خوشی بےساختہ اور انمول ہوتی ہے.
خوشی کشید بھی کی جا سکتی ہے. یہ بھی انسان کی فطرت کا ہی جزو ہے. فطرت کے حسین منظر کو کینوس پر قید کرنے والا، بے ڈول پتھر سے مجسمہ حُسن تراشنے والا، بے جوڑ لفظوں سے نغمے سجانے والا، اپنے تخیل سے لازوال داستانیں رقم کرنے والا، یہ بھی ابنِ آدم ہی تو ہے. جنگل ویرانوں کی فطرت کو اپنے بنائے پارکوں میں ترتیب سے سجانے والا بھی یہی ابنِ آدم ہے. اور ان سب سے لطف و سرور لینے والا بھی یہی ابنِ آدم ہے.
اب جب یہ طے ہوا کہ خوشی کشید بھی کی جاسکتی ہے تو اس کی تلاش بھی انسانی فطرت ہے. یہ ادراک سے خواہش اور خواہش سے طلب کا راستہ ہے. اس تلاش کا پہلا زینہ فہم ہے، اور یہ فہم شُکر کا ہے. انسان کی خوشیوں کے خزانے کی چابی شُکر ہے. یہ شُکر کیا ہے.؟ حسین منظر کو دیکھنے کی اہلیت کا شُکر، مترنم آواز کو سننے کا شُکر، اللہ کی نعمتوں کو کھانے، پینے، سونگھنے دیکھنے کا شُکر. یہ شُکر اور بار بار کا شُکر اس خزانے کی سمجھ دیتا ہے، اس کی قدر دیتا ہے, اس کو برتنے کا سلیقہ دیتا ہے، اور قناعت سے نوازتا ہے، وہ قناعت جہاں وقت تھم جاتا ہے، جہاں انسان اس نعمت کے شُکر اور اس کے احساس میں اتنا مسحور ہو جاتا ہے کہ اگلی نعمت جب اسے اپنی جانب راغب کرتی ہے تو وہ فطرت کی وہی بے ساختہ خوشی لاتی ہے جو بس فطرت کا ہی خاصہ ہے.
تو دوستو ! آؤ کہ خوش ہو کر دیکھیں، آؤ کہ شُکر کرنا سیکھ لیں.
تبصرہ لکھیے