برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے مختلف ادوار میں متعدد قانونی فقہی دستاویزات موجود رہیں۔ پہلی دستاویز ’ فتاوی الغیاثیہ‘ ہے۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد کی قانونی دستاویز ہے۔عربی زبان میں ہے ۔ فقہ حنفی پر مشتمل ہے اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ ہے۔
یہ قریب ساڑھے سو سات سال قدیم اور تاریخی قانونی دستاویز ہے۔اسے ہندوستان میں فقہ کی پہلی دستاویز کہا جاتا ہے۔ دوسری قانونی دستاویز ’’ فتاوی قراخانی‘‘ ہے۔یہ فارسی زبان میں ہے اور فتاوی الغیاثیہ کی طرح یہ بھی ابھی شائع نہیں ہوا۔مخطوطہ ہے یعنی ہاتھ سے لکھی ہوئی دستاویز ہے اور یہ بھی پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہے۔امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سطان جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے دور میںمرتب کیاگیا۔ تیسری قانونی دستاویز کا نام ’ فوائد فیروز شاہی ‘ ہے۔یہ سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور کی دستاویز ہے اور یہ بھی غیر مطبوعہ ہے ۔یہ مخطوطہ بھی پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس کا ایک اور قلمی نسخہ ترکی کی استنبول لائبریری میں بھی موجود ہے۔ایک قلمی نسخہ خدا بخش لائبریری بانکی پور ( پٹنہ) میں موجود ہے۔۔اسی دور کی ایک اور فقہی دستاویز کا نام ’ فقہ فیروز شاہی ‘ ہے۔ اس کا تعلق بھی فیروز شاہ تغلق کے دور سے ہے۔
یہ بھی غیر مطبوعہ ہے اور اس کا قلمی نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہے۔ چوتھی قانونی دستاویز کا نام ’ فتاوی تاتار خانیہ ‘ ہے۔ اس کی تیس جلدیں ہیں۔اتنا اہم کام بھی ابھی تک غیر مطبوعہ ہے ۔ دنیا کی پانچ لائبریریوں میں اس کہ کچھ جلدیں دستیاب ہیں۔ حیدر آباد کے کتب خانہ آصفیہ پہلی نو جلدیں موجود ہیں۔کتب خانہ خد یویہ( مصر )میں چند جلدیں موجود ہیں ، کتب خانہ بانکی پورہ میں تین جلدیں دستیاب ہیں۔کتب خانہ رام پور میں دو جلدیں رکھی ہیں۔ صرف احمد آباد کا کتب خانہ پیر محمد شہ ایسی لائبریری ہے جہاں اس کا پورا سیٹ دستیاب ہے۔یہ کتاب سلطان فیروز شاہ تغلق کے امیر تاتار خان کی ہدایت پر لکھی گئی۔ پانچویں کتاب ’ فتاوی الحمادیہ‘ ہے جو اس وقت کے قاضی القضاء یعنی چیف جسٹس حماد جمال الدین کی ہدایت پر لکھی گئی۔
یہ کتاب چونکہ اس وقت کے قاضی القضاء کی ہدایت پر لکھی گئی تھی،اس لیے اس کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی پڑھ رہے ہیں۔ اس میں قاضی ( جج) اور وکیلوں کے لیے الگ الگ باب ہیں جن میں ہر دو کے لیے شاندار ضابطہ اخلاق تجویز کیا گیا ہے۔ قانون شہادت اور شہادت کے آداب پر پورا باب ہے۔ (Dying Declaration) کی اہمیت پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔یہ کتاب پنجاب یونیورسٹی لائبریری ، انڈیا آفس لائبریری لندن، مانچسٹر لائبریری ، رام پور لائبریری ، کتب کانہ خز یویہ ( مصر) اور حیدر آباد دکن کے کتب خانہ آصفیہ میں موجود ہے۔ چھٹی کتاب ’ فتاوی ابراہیم شاہی ‘ ہے۔یہ دستاویز سلطان ابراہیم شرقی ، والی جون پورکے دور میں تیار کی گئی اور ان کے قاضی ( چیف جسٹس) ، احمد بن محمد جون پوری نے مرتب کی۔ ساتویں دستاویز کا نام ’ فتاوی امینیہ ‘ ہے۔ یہ بھی مخطوطہ ہے ۔
فارسی زبان میں ہے ۔اس کے دنیا میں کل تین نسخے موجود ہیں۔ ایک پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں دستیاب ہے ، ایک ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی لائبریری میں رکھا ہے اور ایک کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔اس میں بھی وکالت ، قضاء اور شہادت کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ آٹھویں دستاویز کا نام ’ فتاوی بابری‘ ہے۔ شہنشاہ بابر کی فرمائش پر یہ مجموعہ مرتب کیا گیا۔شیخ نور الدین خوانی نے اسے مرتب کیا تھا۔یہ بھی مخطوطہ ہے۔ نویں دستاویز ’فتاوی عالم گیری‘ہے؟ اس کی تیاری میں بہت سے علماء نے حصہ لیا اور بعض مورخین نے اسے مغل سلطنت کا آئین قرار دیا ہے۔چنانچہ رچرڈ ایٹن ( Richard Eateon) نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے بعض فرمان اسی’ فتاوی عالم گیری‘ کی روشنی میں جاری کیے۔اورنگ زیب عالم گیر ہی کے زمانے کا ایک فرمان ہے جو انہوں نے احمد آباد کے دیوان محمد ہاشم کو بھیجا تھا جسے ’ فرمان عدالت‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں الگ الگ شقوں میں مختلف جرائم کی سزائوں کا بتایا گیا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں کچھ جرائم کی تقسیم وہی ہے جو قریب پونے دو سو سال بعد برطانوی فوجداری قانون میں دی گئی۔جیسے ڈکیتی ، سنگین ڈکیتی اور شاہراہ عام پر کی گئی ڈکیتی کو الگ الگ دفعات میں بیان کیا گیا۔ یہ نہ بھی کہا جائے کہ بعد کے نو آبادیاتی قانون نے اورنگزیب کے اس قانون سے کچھ اخذ کیا تو یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ نو آبادیاتی قانون سے پہلے بھی بر صغیر میں ایک قانون تھا اور معاملات ریاست اسی کے تحت چلائے جا رہے تھے۔ اس معاملے میں ایک اہم؛ اور معتبر گواہی برٹن سٹین ( Burton Stein) کے مطابق فتاوی عالم گیری کے ذریعے اورنگ زیب نے علماء کی وہ توقیر بحال کرنے کی کوشش کی تھی جو اکبر کے دور میںختم ہو گئی تھی۔ لیکن یہ رائے متعصب لگتی ہے۔ کوئی بادشاہ اتنی بڑی علمی مشق صرف علماء کے لیے کیوں کرے گا، اگر وہ خود اس کا ذوق نہ رکھتا ہو؟
بادشاہانہ طرز حکومت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور اسے عین اسلامی حکومت کہنا ممکن نہیں ہوتا لیکن ان ساری قباحتوں کے باوجود بہت سارے شواہد موجود ہیں کہ اورنگ زیب کا رجحان مذہب کی طرف تھا۔لیکن یہاں مسئلہ اورنگ زیب کا تو ہے نہیں، سوال تو یہ ہے کہ انگریز کے قانون سے پہلے یہاں کئی قانون تھا یا نہیں اور اس کا جواب بہت واضح ہے کہ قانون اپنی قوت نافذہ کے ساتھ موجود تھا۔ نو آبادیاتی دور میں بنگال کے چیف جسٹس رہنے والے جارج کلاز رینکن ( George Claus Rankin)لکھتے ہیں کہ کہ جب گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز ( Warren hastings)نے 1772میں ہندوستان میں قانون سازی کے لیے ایک پلان مرتب کیا تو اس میں ابتدائی مرحلے میں " Law of the Koran" یعنی قرآن کے قوانین کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی جسے بعد میں سیکشن پندرہ میں بدل کر محمڈن لاء کر دیا گیا۔
کیونکہ قانون سازوں کو سمجھایا گیا کہ شرعی قانون کو سمجھنے کے لیے قرآن کے ساتھ ساتھ سنت، حدیث اور اجتہاد جیسے دیگر مآخذ بھی ضروری ہیںاور یہ پورا ایک قانونی نظام ہے جو قانون سازی کرتا ہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ برصغیر میں صدیوں سے رائج مسلمانوں کے اس قانون کو صرف اس بات پر قانون تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا جائے کہ اس کی ہیئت کامن لاء سے مختلف تھی۔اس فکری گرہ کو نہ صرف سمجھنے بلکہ اسے کھولنے کی ضرورت ہے ۔احساس برتری اور احساس کمتری ، دونوں رویے نامناسب اور غیر موزوںہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کا دور حکمرانی چند سالوں کی بات نہیں ، یہ عشروں پر محیط ہے۔ اس دور میں یہاں ایک قانون نافذ تھا۔ اس قانون کی نفی کے دلائل کیا ہیں؟ یعنی آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ اس قانون کو باضابطہ قانون ہی نہ تصور کیا جائے؟(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے