عمران خان کے افواجِ پاکستان اور بالخصوص آرمی چیف کے حوالے سے متنازع بیانات کی وجہ سے معاملات بگڑ رہے ہیں۔ یہ معاملہ ہر جگہ زیر بحث ہے اور سابق وزیراعظم کے قریبی ساتھی صدر پاکستان عارف علوی نے بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ "وہ اپنے بیان کی خود وضاحت کریں، ان کے کہنے کا کیا مقصد تھا فوج محب وطن ہے، جان دیتی ہے، فوج نے سیلاب میں بھی کام کیا، آرمی چیف سمیت پوری فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جاسکتا، موجودہ حکومت سمیت سب ادارے محب وطن ہیں۔
پس پردہ مفاہمت کیلئے کام اور کوشش کر رہا ہوں کہ اسٹیک ہولڈرز میں غلط فہمیاں دور کروں۔" صدر پاکستان عارف علوی عمران خان کے بہت قریب ہیں اور وہ ملک کے صدر ہونے کے باوجود پارٹی پالیسی کو اہمیت دیتے ہیں انہوں نے بھی پارٹی چیئرمین کے نامناسب بیان سے ہاتھ کھینچا ہے۔ صدر عارف علوی نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے بیان کی حمایت یا تائید کرنے کے بجائے وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان ایسی گفتگو کیوں کرتے ہیں کہ انہیں یا ان کی ٹیم کو ہر وقت وضاحتوں کی ضرورت پیش آتی رہے۔ کیا ایسی مجبوری ہے کہ روزانہ گفتگو کرنی ہے اور متنازع گفتگو کرنی ہے۔ یہ کوئی قومی خدمت تو ہرگز نہیں ہے۔
صدر عارف علوی نے بھی ہر محب وطن پاکستانی کی طرح فوج کے سربراہ اور ادارے کی حب الوطنی کی گواہی دی ہے۔ صدر پاکستان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان نے کسی کو باقاعدہ طور پر ہدف بناتے ہوئے گفتگو کی ہے۔ انہوں نے براہ راست فوج کے موجودہ آرمی چیف اور نئے آنے والے آرمی چیف کے حوالے سے ایک غیر ضروری بحث چھیڑی ناصرف گفتگو کی بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ فوج کا سربراہ کسی محب وطن کو ہونا چاہیے یہ بیان کسی بھی طور ملک کے سابق وزیراعظم اور مقبول سیاسی قائد کو زیب نہیں دیتا۔ صدر پاکستان کا موقف درست ہے کہ عمران خان اس کی وضاحت کریں لیکن شاید ان کی وضاحت معاملات کو مزید بگاڑے گی۔ عمران خان وضاحت کرتے ہوئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کریں گے بلکہ وہ وضاحت کے بجائے کسی اور طرف نکل جائیں گے۔ درحقیقت انہیں وضاحت کے بجائے اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔
وہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اس وقت مختلف سیاسی جماعتیں حکومت میں ہیں۔ عمران خان یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ یا پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں ان کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہی ہیں، ان کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے لیکن پی ڈی ایم عمران خان کی جگہ بیانات تو جاری نہیں کر رہی۔ عمران خان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ سیاسی اجتماعات میں فوج کو ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، افواجِ پاکستان کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے کو جلسوں میں بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ صدر پاکستان اگر سٹیک ہولڈرز کو بٹھانا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے انہیں سابق وزیراعظم کو بٹھانا ہو گا۔ انہیں بتائیں کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں یہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک میں انتشار پیدا ہو رہا ہے، لوگوں کو گمراہ کرنے کے بجائے سیاسی میدان میں مقابلہ کریں۔
دو صوبوں میں ان کی حکومت ہے کام کریں، نظام میں رہیں گے تو انتخابات بھی ہو ہی جائیں گے جس راستے پر وہ چل رہے ہیں یا جس حکمت عملی کے تحت وہ انتخابات میں جانا چاہ رہے ہیں جس طرح وہ اپنے ووٹرز کو متحرک رکھنا چاہ رہے ہیں یہ طرز سیاست مناسب نہیں ہے۔ افواجِ پاکستان کی حب الوطنی کے حوالے سے کوئی بھی شخص یا سیاسی جماعت اعتراض کرے یا اسے مشکوک بنائے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ایسے رویے کی حمایت کرتے ہوئے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ صدر مملکت اگر اپنی جماعت ہے سربراہ کو یہ سمجھانے اور پارٹی سربراہ یہ سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بہتری کی امید ہے ورنہ خان صاحب نے گیند پکڑی ہوئی ہے اور وہ سب کو بلے باز سمجھ کر باؤنسر کرواتے جا رہے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ہر اوور میں باؤنسر کروانے کی بھی تعداد مقرر ہے، اگر آپ "بیمر" کرتے ہیں تو باؤلنگ کے لیے نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سو اس طرح کی باؤلنگ نہ کریں کہ امپائر آپ کے ہاتھ سے گیند پکڑ کر کسی اور کے حوالے کر دے۔ اگر عمران خان پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو اپنا حریف یا سیاسی دشمن سمجھتے ہیں تو ان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرتے رہیں لیکن اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ ان سیاسی جماعتوں کو حریف نہیں سمجھتے، وہ اور ان کے رفقاء اداروں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ اتوار کو فیصل آباد میں عمران خان نے افواجِ پاکستان کے حوالے سے متنازع گفتگو کی اور منگل کو پی ڈی ایم پر برس پڑے۔ کہتے ہیں ’’میں اس کڑے پراپیگنڈے پر نگاہ رکھے ہوئے ہوں‘‘ جو مجرموں کا پی ڈی ایم نامی گروہ میرے خلاف کر رہا ہے۔اسکی وجہ وہ خوف ہے جس میں یہ پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث مبتلا ہیں۔میں پشاور کے کے جلسے میں ان سب کو باضابطہ جواب دوں گا جو مجھے بدنام کرنے کیلئے میرے الفاظ کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ رہے ہیں۔بس بہت ہوگیا۔"
خان صاحب کے الفاظ کو ان سے زیادہ کوئی توڑ مروڑ نہیں سکتا۔ انہیں سیاست کے لیے سیاسی بیانیہ اپنانے کی ضرورت ہے، سیاست تحمل مزاجی اور درگذر کا نام ہے۔ آج انہیں دیوار سے لگنے کا خوف کھائے جا رہا ہے تو یہی خوف چند سال قبل کسی اور کو لاحق تھا۔ جب حکومت میں ہونے کے باوجود نہ کرپٹ لوگوں کو سزا دینے میں کامیاب نہ ہو سکے، نہ کرپشن روک سکے، نہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر کام کر سکے پھر دوسروں پر الزام دھرنے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فوج کو سیاسی عمل میں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملات مزید بگڑ جائیں، بہتر ہے کہ حکمت عملی تبدیل کریں، پاکستان کو معاشی عدم استحکام سے بچانے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کیخلاف درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی دور کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا ایک سو تیئیس ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا آرڈر غیر قانونی قرار دے دیا۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ استعفیٰ دینے والا ہر رکن انفرادی طورپر سپیکر کے سامنے پیش ہوکر تصدیق کرے، ہمیں سوچ بدلنا پڑے گی۔ دوسری طرف ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری کو دھمکی دینے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان جمع کرانے سے روکتے ہوئے عمران خان کو دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونیکا حکم دیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے وہ سب لوگ جو عمران خان سے بڑے عمران خان بننے کی کوشش میں بیانات جاری کر کے معاملات میں بگاڑ کا سبب ہیں صدر پاکستان عارف علوی کو انہیں بھی غیر ضروری بیانات سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ ساری کشتیاں جل جائیں، اس سے پہلے کہ سٹیک ہولڈرز کے مابین دیوار چین قائم ہو جائے واپسی کا راستہ اختیار کریں۔
تبصرہ لکھیے