کل یوم دفاع گزرا ، آج یوم فضائیہ ہے۔ دونوں دنوں سے بہت یادیں وابستہ ہیں۔ 6 ستمبر کو جو معرکہ دنیا بھر میں مشہور ہوا، لاہور کا تھا۔ اس شہر کے دفاع کے لیے بہت کم، بہت ہی کم نفری موجود تھی اور بھارت کے پاس ٹھیک ٹھیک انٹیلی جنس اطلاعات موجود تھیں اور جب بھارتی جرنیل نے کہا تھا کہ آج رات کی شراب ہم لاہور کے جم خانے میں پئیں گے تو یہ بڑھک نہیں تھی، محض اطلاع تھی۔
بھارت کو یقین تھا اور صورتحال کے حساب سے ٹھیک یقین تھا کہ بھارتی فوجی قافلہ لاہور میں مارچ کرتے کرتے داخل ہو گا اور اسے فتح کر لے گا۔ انوکھا تب ہوا جب لاہور کے دفاع پر تعینات تھوڑی سی نفری نے ایسا مقابلہ کیا کہ بھارت کو اپنی انٹیلی جنس پر شبہ ہونے لگا۔ ’’یہاں تو پوری فوج‘‘ مقابلہ کر رہی ہے‘‘ یہ بھارتی افسروں کا تاثر تھا۔ جہاں تک بڑھ آئی ، بڑھ آئی، اس کے بعد قدم ایسے رکے کہ جنگ بندی ہونے تک رکے ہی رہے۔ جوانوں اور افسروں نے یہ جنگ جیتنے کے لیے نہیں، اپنی جانیں دینے کے لیے لڑی اور بھارت کا لاہور کو فتح کرنے کا خواب بری طرح بکھر گیا۔ قارئین میں سے بعض کے لیے یہ اطلاع شاید نئی ہو کہ تقسیم سے کچھ پہلے کانگرس کے بعض رہنما لاہور کو بھارت کا دارالحکومت (بجائے دہلی کے) بنانے کی تجویز پر غور کر رہے تھے ان کا خیال تھا کہ چونکہ اس شہر میں مسلمان 45 فیصد اور ہندو سکھ 55 فیصد ہیں، لہٰذا یہ بھارت کے حصے میں آئے گا۔
آج کے یوم فضائیہ کی اہمیت یہ ہے کہ بھارت سے آدھی سے بھی کم فورس (جہاز ، ہیلی کاپٹر) رکھنے کے باوجود پاک فضائیہ نے دشمن کو دگنا نقصان پہنچایا اس جنگ میں پاکستان کے 19 یا 20 طیارے تباہ ہو گئے اور بھارت کے 60 سے زیادہ۔ خود بھارت کا سرکاری اعتراف یہ ہے کہ اس کے 59 تک طیارے تباہ ہوئے۔ ایم ایم عالم اور سسل چودھری جیسے ہیرو قوم کو مدّت تک یاد رہے، پھر بہت ساری دیگر یادوں کی طرح یہ نام بھی، بڑی حد تک، نذر طاق نسیاں ہو گئے۔
1965ء کا پاکستان ’’متحدہ‘‘ تھا۔ 1971ء میں سب کچھ بدل گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بہت سا ثقافتی ورثہ ہم سے روٹھ گیا۔ نیا سیاسی اور ثقافتی کلچر پیدا ہو گیا، پرانی روایات میں سے بہت ساری ختم ہو گئیں۔ دن بدن پاکستان نیا سے نیا ہوتا رہا۔ پرانا پاکستان اب ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ 6 ستمبر، 14 ۔اگست کے دن جب قائد اعظم کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں اخبارات میں چھپتی اور ٹی وی پر چلتی ہیں تو ایک جھلک پرانے پاکستان کی مدھم سی یاد کی صورت چمک اٹھتی ہے، پھر چنگاری کی طرح بجھ جاتی ہے۔ ڈیڑھ دو عشرے سے نکلنے والے یوم آزادی کے جلوس جو باجوں کی پیں پیں اور موٹر سائیکلز کے کرتبوں سے عبارت ہیں، سال بہ سال پرانے پاکستان کے نقوش کو مٹاتے چلے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی ہے، بھارت اب بھی پرانا بھارت ہے باوجود ہمارے مقابلے میں دس گنا ترقی کر جانے کے اور ہم دن بدن ’’نئے‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔
مسلح افواج تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے اس خطاب پر سخت غم و غصے میں ہیں جو انہوں نے فیصل آباد کے جلسے میں کیا اور جس میں انہوں نے جرنیلوں کے حوالے سے محب وطن یا غیر محب وطن کی تقسیم کے حوالے سے بات کی تھی۔
ایسی بات پہلے کسی لیڈر نے نہیں کی تھی اور کسی لیڈر سے اس کی توقع ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ لگتا ہے، عمران خان کسی جھپٹ میں آ گئے۔ یعنی کسی ہوائی چیز نے ان میں سرایت کر لیا۔ ورنہ وہ یوں دن بدن ’’نارمل‘ سے ’’ایبنارمل ‘‘ نہ ہوتے چلے جاتے۔ اب پی ٹی آئی والے ان کے بیان کا یہ کہہ کر دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ والے بھی تو فوج اور جرنیلوں پر تنقید کرتے رہے ہیں یعنی؎
ایں گنا ھستِ کہ در شہر شمائیز کنند
حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہرگز نہ کنند۔ مسلم لیگ والوں کی تنقید کے غلط یا درست ہونے پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن وہ سیاسی حوالے سے تھی کہ ہماری حکومت کیوں ختم کی، دھاندلی کیوں کروائی وغیرہ وغیرہ۔ غدّار ہونے کا سوال مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی یا کسی بھی اور جماعت نے نہیں اٹھایا۔ ان میں سے کسی نے فوج کے اندر میر جعفر، میر صادق ہونے کی بات نہیں کی امریکہ کے ساتھ سازباز کر کے سازش کرنے کا الزام بھی نہیں لگایا، جانور ہونے کی بات بھی نہیں کی اور کبھی یہ بھی نہیں کیا کہ دشمن کو اندر سے آلہ کار مل گئے۔
نواز شریف کے پاس یہ سوال کرنے کی گنجائش موجود تھی کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ یہ سوال عمران خان نہیں کر سکتے۔ ان کی حکومت فوج کی مداخلت سے ختم نہیں ہوئی بلکہ، اس کے برعکس، فوج کے مداخلت نہ کرنے سے ختم ہوئی۔ یہ بات تو خود عمران خان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ جب وہ معترض ہوتے ہیں کہ فوج ’’نیوٹرل‘‘ کیوں ہوئی اور نیوٹرل تو جانور ہوا کرتے ہیں تو دراصل وہ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو رہی تھی تو فوج نے مداخلت کر کے اسے ناکام کیوں نہیں بنایا۔
عمران حکومت کے اتحادی خود بتاتے ہیں کہ ہم تو آخری دن تک فون کا انتظار کرتے رہے لیکن فون آنا تھا نہ آیا چنانچہ ہم نے اپنا فیصلہ خود کیا اور پی ٹی آئی سے الگ ہو گئے۔
فوج کہتی ہے، وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، باقی ساری قوم بھی یہی کہتی ہے کہ فوج کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن عمران کی ضد ہے کہ فوج مداخلت کرے اور مجھے پھر سے وزیر اعظم بنائے۔ انہیں بڑا غصہ ہی یہ ہے کہ فوج مداخلت کیوں نہیں کرتی۔ بو لعجبی سی بو العجبی ہے۔ بہت سے لوگ عمران خان کے غصے کی وجہ کوئی غیر ملکی ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ شاید یہ بات بھی جلد کھل جائے۔
سب کو انتظار ہے کہ سیلاب کا پانی اترے۔ لیکن وجہ اپنی اپنی ۔ حکومت اس لیے انتظار میں ہے کہ ریلیف ورک کرے، بحالی کا کام شروع کرے۔ عوام اس لیے منتظر ہیں کہ ان تک مدد پہنچے لیکن پی ٹی آئی کا انتظار کسی اور وجہ سے ہے۔
شیخ صاحب نے یہ وجہ بتا دی۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم پانی اترنے کا انتظار کر رہے ہیں پھر خان اسلام آباد پر چڑھائی کی کال دے گا۔ یعنی سیلاب کی تباہی، بے حالی اور بحالی ان کے لیے بے معنی باتیں ہیں۔
شیخ جی، چڑھائی کے لیے پانی کی اترائی کا انتظار کیوں۔ جہاں سے قافلے آنے ہیں، وہاں سیلاب آیا ہی نہیں ہے۔ بے کار انتظار مت فرمائیے، چڑھائی کی تاریخ دے دیجیے۔
25 مئی کو بھی تو فیصلہ کن چڑھائی ہوئی تھی اور آپ نے اس کے نتیجے میں خونی انقلاب کی نوید دی تھی جس نے 25 کی رات یا 26 کی صبح کو آنا تھا، اس کا کیا بنا؟ لوگ تو نہیں آئے، کچھ جتھے ضرور آئے اور سینکڑوں درختوں کو نذر آتش کر کے چلتے بنے۔ اگلی صبح انقلاب تو نظر نہیں آیا، راکھ کے ڈھیر ضرور دیکھے۔
اس بار کال دی تو چند سو مزید درت جلا د ئیے جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ …ویسے ’’نجومی‘‘ بتا رہے ہیں، اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی، یعنی چڑھائی کی، اس سے پہلے ہی ’’انقلاب‘‘ شاید بوری بند کر دیا جائے۔
پچھلے دنوں چڑیا کی اس خبر نے بہت پر پھیلائے کہ جنوری میں حکومت ختم ، مارچ میں الیکشن ہوں گے۔ یہ چڑیا کی بات تھی۔ اندر کی بات یہ پتہ چلی ہے کہ اگلے اگست کے قریب جا کر فیصلہ ہو گا کہ اب کیا کرنا ہے چڑیا ایک اڑان اور بھرے۔ اس کی پہلی پرواز کے بعد سے کچھ جوہری تبدیلی آئی ہے، اس کی خبر لائے۔
تبصرہ لکھیے