ہوم << یہ سب تو ہمیں جھنجھوڑنے کیلئے ہے- اوریا مقبول جان

یہ سب تو ہمیں جھنجھوڑنے کیلئے ہے- اوریا مقبول جان

آج سے ٹھیک بارہ سال قبل 28 جولائی 2010ء کو میں نے چند ایسے اہلِ نظر جن کے بارے میں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘ (جامع ترمذی: 3127)، کے حکم پر ایک کالم تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا، ’’ڈورا ٹوٹ چکا‘‘۔

یہ عنوان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے لیا گیا تھا، جس کا مکمل متن یوں ہے، ’’جب غنیمت کو ذاتی دولت ٹھہرایا جائے، امانت کو غنیمت سمجھا جائے، زکواۃ کو تاوان سمجھا جائے، غیر دین کا علم پڑھا جائے، آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی، دوست کو نزدیک رکھے اور باپ کو دُور، مساجد میں آوازیں ظاہر ہوں، فاسق و فاجر شخص قبیلے کا سردار بن جائے، قوم کا سربراہ ذلیل و کمینہ شخص ہو، آدمی کے شر سے ڈرتے ہوئے اس کی عزت کی جائے، گانے بجانے والیاں اور باجے ظاہر ہوں، شراب پی جائے، اس دَور کے لوگ پچھلے والوں پر لعنت کریں تو اس وقت انتظار کرو، سرخ آندھیوں کا، زلزلوں کا، زمین میں دھنس جانے کا، صورتیں بدلنے کا، پتھروں کے برسنے اور پے در پے نشانیوں کے ظاہر ہونے کا جیسے موتیوں کی لڑی کا ’’ڈورا ٹوٹ جائے‘‘ اور دانے پیہم گرنے لگیں‘‘ (ترمذی)۔

اہلِ نظر نے اسی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا تھا، کہ ہم سے اللہ سخت ناراض ہے اور اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قوم اجتماعی استغفار کرے۔ اہلِ نظر کی وارننگ کے فقرے یہ تھے، ’’ستون نیچے سے نکال لیا گیا ہے اور چھت گرنے والی ہے، لوگوں سے کہو کہ معافی مانگیں۔ شہروں میں ظالم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر بھوکے بھیڑیوں کی طرح دوڑ رہے ہیں، مارگلہ کی پہاڑیوں سے آتش فشاں پھٹا ہے، اور لڑھکتے پتھر لوگوں کو روندے جا رہے ہیں۔ سیلاب ہیں کہ اُمڈے چلے آ رہے ہیں‘‘۔ یہ کالم 28 جولائی کی صبح کو شائع ہوا، اور اہلِ نظر کی بتائی گئی پہلی علامت کے طور پر مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایئر بلیو کا طیارہ دس بجے کے قریب گر گیا اور اسی شام دریائے کابل کی لہروں نے نوشہرہ شہر کو ڈبو دیا۔ اس کے بعد پورے ملک کو سیلاب نے آن گھیرا، کراچی میں کٹی پہاڑی سے فسادات نے زور پکڑا اور کشت و خون شروع ہو گیا۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود قوم نے اجتماعی استغفار تو نہ کی مگر ایک عمل ایسا شروع کیا جس نے اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے فوری کام کیا۔

پوری قوم سیلاب زدگان کی امداد کے لئے سڑکوں پر نکل آئی۔ یہ ایک ایسا اجتماعی قدم تھا جس نے تھوڑے ہی عرصے میں اللہ کی ناراضگی کو ٹال دیا۔ لیکن بحیثیت قوم ہم نے ان سیلابوں کو اللہ کے عذاب یا ناراضگی کے طور پر نہیں لیا۔ بلکہ ہمارے دانشور، سیاسی قائدین اور صاحبانِ اقتدار سیلاب کی تباہ کاری کو عمومی نااہلی، وسائل کی کمی اور عوام کی بے حسی سے ہی تعبیر کرتے رہے۔ جب بھی کبھی ایسی آفت آتی ہے تو یہ سوال ضرور اُٹھایا جاتا ہے کہ اللہ کا عذاب صرف غریبوں کی بستیاں ہی کیوں اُجاڑتا ہے۔ ظالموں کے گھر کیوں تباہ نہیں کرتا۔ اس سوال کا جواب تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے گذشتہ دو سالوں میں کرونا کی وباء کے نزول کے وقت انتہائی تشفی بخش طور پر دے دیا تھا۔ کرونا کا عذاب ان ملکوں اور ان شہروں پر نازل ہوا، جو معاشی طور پر انتہائی مستحکم تھے، جن کے ہاں حفظانِ صحت کے تمام اُصولوں پر عملدرآمد ہوتا تھا۔

لیکن پانچوں سپر پاورز کے مرکزی علاقے اس وباء کا شکار ہوئے اور 65 لاکھ لوگ لقمۂ اجل بن گئے جن میں سے اکیلے امریکہ میں دس لاکھ ستر ہزار افراد موت کی آغوش میں گئے، جبکہ افریقہ کے بے سروسامان اور غریب ممالک کی جانب کرونا نے رُخ بھی نہیں کیا۔ اس وباء کے دوران کسی سیکولر، لبرل شخص نے یہ سوال نہیں کیا کہ اللہ نے کرونا کے دوران اپنا غصہ زیادہ تر امیر ممالک پر ہی کیوں نکالا، انہی کی پُرتعیش اور بد مست زندگی کو ہی برباد کیوں کر دیا۔ سائنسدانوں کو ایسی قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا مکمل ادراک ہے، مگر وہ اپنی اس کمزوری کا اعلان نہیں کرتے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ تو آفات کی صحیح طور پر پیش گوئی کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔

زلزلوں کی تو چاپ تک سنائی نہیں دیتی اور مون سون، سمندری طوفانوں اور سیلابوں کا اندازہ تو ہو جاتا ہے لیکن کب یہ طوفان کس جانب مڑ جائے اور کون سی بستی غرق کر دے اس کے بارے میں کوئی سائنس دان کچھ نہیں بتا سکتا۔ اپنی اس بے بسی کے باوجود بھی یہ ان لوگوں کا تمسخر ضرور اُڑاتے ہیں جو آفتوں کے دوران آواز لگاتے ہیں کہ اللہ سے رجوع کرو، اللہ قادر ہے، وہ ٹال دے گا۔ ٹھیک بارہ سال بعد ایک بار پھر اہلِ نظر نے ایسی ہی وارننگ میرے گوش گزار کی تھی اور میں نے وہ پیغام ڈیڑھ ماہ قبل مختلف میڈیا کے راستے عوام تک پہنچا دیا تھا، اس میں نہ میرا کوئی کمال ہے اور نہ ہی میری کوئی حیثیت۔ میں تو ایک پیغام رساں ہوں۔

اس ڈیڑھ ماہ میں سب سوئے رہے اور آج جب پورے ملک میں سیلاب کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ لوگ بے گھر چکے ہیں، ایک ہزار لقمۂ اجل بن گئے، لاکھوں مویشی مارے گئے اور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، پھر بھی عوام کی اکثریت یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ زمینی آفتوں اور اجتماعی مصیبتوں کے حوالے سے یہ تصور واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ عذاب دُنیا میں انسانوں کے لئے جزا و سزا کے طور نازل نہیں ہوتا بلکہ یہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے نازل کیا جاتا ہے، تاکہ ہم سنبھل جائیں اور آخرت کے عذاب سے بچنے کی فکر کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’اور ہم انہیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل، شاید یہ رجوع کر لیں‘‘ (السجدہ: 21)۔ یعنی دُنیا کا عذاب اس لئے دیا جاتا ہے، تاکہ عبرت پکڑی جائے۔ ایسا عذاب افراد کے اعمال کی سزا کے طور پر نہیں آتا، بلکہ بحیثیت قوم انہیں اللہ کے غیظ و غضب کا ایک نمونہ دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ اسی لئے فرمایا، ’’ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لاحق نہیں ہو گا‘‘ (الانفال: 25)۔ اللہ کا یہ عذاب انفرادی اعمال کی سزا کے طور پر ہرگز نہیں ہوتا، بلکہ ایسا فیصلہ اجتماعی خرابی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ عذاب کے دوران اگر کوئی نیک شخص مرے گا تو وہ اپنا اجر پائے گا اور جو بداعمال مارا جائے گا، تو وہ بھی اپنی سزا پائے گا۔ اجتماعی عذاب کے دوران اگر کوئی واقعی اس سے محفوظ رہ گیا تو ایسے شخص کا ایک اور امتحان شروع ہو جاتا ہے۔

اگر تو اس نے بچ نکلنے پر اللہ کا شکر ادا کیا، اس کی طرف رجوع کیا تو اس کے لئے یہ عذاب آزمائش میں بدل گیا اور اگر وہ اَکڑ گیا کہ دیکھو! میرا گھر مضبوط تھا، میرے انتظامات بہترین تھے، تو سمجھو وہ ان لوگوں میں سے ہو گیا جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور آخرت کا عذاب اس کا مقدر ہو گیا۔ ایک اجتماعی روّیہ جس کی وجہ سے ہر خاص و عام پر عذاب آتا ہے اس کی نشاندہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی، ’’اللہ عوام کو خاص لوگوں کے بُرے اعمال کے سبب عذاب نہیں دیتا، جب تک وہ اپنے درمیان بُرائی کو کھلے عام پائیں اور اس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ ہر خاص و عام کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘(مسند احمد، موطۂ امام مالک، طبرانی)۔

اہلِ نظر کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم میں ایک عیب اب بہت عام ہو گیا ہے کہ یہ قوم اسقدر بے حس ہو چکی ہے کہ بُرائی کو بالکل نہیں روکتی بلکہ اُلٹا بُرائی کو پسند کرتی ہے اور بُرائی کرنے والے کی مدد کرتی ہے، ایسے لوگوں کی ہر جگہ حمایت کرتی ہے اور ایسے افراد کی نافرمانیوں کا دفاع کرتی ہے۔ ایسی قوم کو اللہ جھنجھوڑنے کے لئے یہ عذاب نازل کر رہا ہے۔ ورنہ وہ ان سب کو نیست و نابود بھی کر سکتا تھا۔

Comments

Click here to post a comment