جنگیں اور قدرتی آفات انسانوں کو جس بیدردی سے بے بس ولاچار بناتی ہیں اس کا مشاہدہ میں نے بطور رپورٹر پاکستان ہی نہیں دنیا کے کم از کم5دیگر ممالک میں بھی برسرزمین کئی ہفتے گزارتے ہوئے کررکھا ہے۔ہمارے ہاں 2010ءکا سیلاب آیا تو راجن پور سے ٹھٹھہ تک سیلابی پانی کا تعاقب کرتے ہوئے ہزاروں پاکستانیوں کی زندگی اجڑتے دیکھی۔
عمر نے اب فیلڈرپورٹنگ کے لئے درکار توانائی سے محروم کررکھا ہے۔عملی صحافت کے طویل برس مجھے غافل اورلا تعلق مگربنانہیں پائے۔اسی باعث گزشتہ کئی دنوں سے یہ کالم فقط رواں برس کے لائے سیلاب کے ہولناک اثرات بیان کرنے پر مرکوز رکھے ہوئے ہوں۔تباہ کاری کی شدت کو بھانپتے ہوئے روانی میں ایک بار یہ بھی لکھ دیا کہ سرکار اور عمران خان صاحب فی الوقت تخت یا تختہ والی جنگ کو بھلاکر سیلاب زدگان کے دُکھوں کے ازالے کی صورتیں نکالنے پر توجہ دیں۔ ہفتے کے روز مگر جہلم میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد نے ان صحافیوں کو ”لفافہ“ اور ”ضمیر فروش“ ٹھہرادیا ہے جو انہیں آفت کی اس گھڑی میں ”سیاست“ سے دور رکھنا چاہ رہے ہیں۔ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ”لفافی اور ضمیر فروش صحافی“ درحقیقت خان صاحب کی جانب سے ”حقیقی آزادی“ کے لئے برپا جنگ کو اپنی بکاﺅ دانش سے کمزور کرنا چاہ رہے ہیں۔
ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعد مجھے ”لفافی اور ضمیر فروش“ تصور کئے جانے سے خوف آتا ہے۔ ”حقیقی آزادی“ کی تڑپ میرے قلب میں اب بھی اگر بھڑکتی نہیں تب بھی سلگتی ضروری رہتی ہے۔عمران خان صاحب اگر بھرپور توانائی سے اس کے حصول کے لئے واقعتاکوشاں ہیں تو میں اس میں اپنی بساط کے مطابق کچھ حصہ ڈالنا چاہتا ہوں۔یہ طے کرنے میں تاہم ناکام ہورہا ہوں کہ ”حقیقی آزادی“ وہ کس قوت سے حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔
رواں برس کے آغاز میں عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کی گیم لگی تو تحریک انصاف کے قائد نے نہایت مہارت اور استقامت سے ہمیں قائل کرنا چاہا کہ ”حقیقی آزادی“ کا مطلب پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے آزاد کروانا ہے۔اسی باعث وہ موجودہ حکومت کو ”امپورٹڈ“ پکارتے ہوئے میدان میں اتر آئے۔ اس حکومت کے ریاستی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز مبینہ سرپرستوں کو ”میر جعفر“ بھی ٹھہرانا شروع ہوگئے۔چند ہی ہفتے قبل مگر امریکہ کے پاکستان میں تعین کئے سفیر پشاور تشریف لے گئے تھے۔خیبرپختونخواہ کی حکومت نے ان کا پشتونوں سے منسوب روایتی مہمان نوازی سے خیرمقدم کیا۔امریکی سفیر نے ان سرکاری حکام سے بھی طویل ملاقات کی جو صحت عامہ کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ان کو مزید طاقت ور اور متحرک بنانے کے لئے امریکی سفیر نے چند جدید ترین گاڑیوں کی چابیاں بھی ان کے حوالے کیں۔ امریکی سفیر کے خیبرپختون خواہ میں دوستانہ خیرمقدم نے لہٰذا مجھے اس گماں میں مبتلا کردیا کہ عمران خان صاحب اور ان کی ولولہ انگیز قیادت کی بدولت قائم ہوئی صوبائی حکومت امریکہ کو اپنا اصل ویری تصور نہیں کرتی۔ اس کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات بلکہ گرم جوشی سے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
امریکہ میں آباد بے شمار پاکستانی عمران خان صاحب کے دیرینہ حامی اور خیرخواہ ہیں۔پیر کے دن عمران خان صاحب ان سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کے ذریعے رابطے کا ارادہ بنائے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کو متحرک رکھنے کے لئے ان پاکستانیوں سے چندے کا حصول مجوزہ رابطے کا بنیادی مقصد تھا۔نائن الیون کے بعد اگرچہ امریکہ میں بہت محنت اور سوچ بچار کے بعد وہاں کے جاسوسی اور قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کو ازسرنومنظم بنایا گیا ہے۔ان کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے کہ امریکہ میں آباد پاکستانی اپنے ملک کی کسی ایسی جماعت اور سیاسی رہ نما کو کھل ڈل کر مالی معاونت فراہم کریں جو واشنگٹن سے ”حقیقی آزادی“ کے طلب گارہوں۔ ”حزب اللہ“ کے قائد حسن نصراللہ مثال کے طورپر امریکہ میں مقیم اپنے حامیوں سے براہِ راست رابطے استوار نہیں کرسکتے۔ وہاں کے ایف بی آر جیسے ادارے مسلسل اس تنظیم کے اپنے ملک میں موجود کارندوں کا سراغ لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکہ میں آباد عمران خان صاحب کے دیرینہ خیرخواہوں کے ساتھ مگر ایسا رویہ کبھی اختیار نہیں ہوا۔مجھے اس کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے۔
جہلم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے ”مسٹرایکس“ اور ”مسٹروائی(Y)“ کا ذکر بھی کیا۔الزام یہ بھی لگایا کہ ان دونوں کو تحریک انصاف کو کمزور بنانے کا ہدف سونپا گیا ہے۔”مسٹر ایکس“ نے یہ فریضہ لاہور میں سرانجام دینا ہے۔”مسٹر وائی“ یہ ذمہ داری اسلام آباد میں نبھائیں گے۔ خان صاحب نے یہ بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ مذکورہ افراد کا تعلق کس ریاستی ادارے سے ہے اور انہیں تحریک انصاف کو کمزور بنانے کا فریضہ کس ریاستی عہدے دارنے نے سونپا ہے۔غالباََ انہیں کامل یقین ہے کہ ان کے جلسوں میں شریک افراد اور ان کے خطات کو عقیدت سے سننے والے عمران خان صاحب کے ایجاد کردہ ”استعارے“ جبلی طورپر سمجھ لیتے ہیں ۔ ”مسٹرایکس اور مسٹروائی“ کالہٰذا ذکر ہی کافی ہے۔”حقیقی آزادی“ کے سفر میں یوں گماں ہوتا ہے کہ ”لفافی اور ضمیر فروش“ صحافی ہی حائل نہیں۔ اصل ”لگام“ کہیں اور تیار ہورہی ہے۔”وہاں “ جو سوچا جارہا ہے اپنے گھر تک محدود ہوا مجھ جیسا صحافی اسے سمجھنے کے قابل نہیں۔
اسی باعث اپنی توجہ اس حقیقت پر مرکوز رکھنے کو مجبور ہوں کہ حالیہ سیلاب نے فی الوقت کم از کم تین کروڑ پاکستانیوں کو بے گھر بنادیا ہے۔ان کی بھاری بھر کم اکثریت محدود آمدنی والوں یا دیہاڑی داروں پر مشتمل ہے۔ایسے افراد بھی لاکھوں میں ہیں جو وڈیروں کی زمینوں پر غلام ہوئے ہاریوں کی صورت زندہ رہنے کے عادی ہیں۔ان پاکستانیوں کا اب کوئی وارث اور سرپرست نظر نہیں آرہا۔کھلے آسمان تلے پناہ ،خوراک اور ادویات کے منتظر پاکستانی تھوڑا سنبھلنے کے بعد کیا سوچیں گے اس کا اندازہ لگانا لازمی تصور کرتا ہوں۔فیلڈ رپورٹر کی جبلت مجھے یہ سوچنے کومجبور کررہی ہے کہ کامل بدحالی کا شکار ہوئے ان پاکستانیوں کے دلوں میں ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے خلاف نفرت وغصے کے جذبات ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔سرکار ان کی معاشی بحالی کے لئے کماحقہ حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے ٹھوس عملی اقدامات لیتی نظر نہ آئی تو ”حقیقی آزادی“ کی ایک نئی تڑپ نمودار ہوگی۔
یہ تڑپ ”اشرافیہ“ کو اپنا دشمن گردانے گی اور عمران خان صاحب بھی ان کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے نظر نہیں آرہے۔ وگرنہ ہفتے کے دن جہلم کے بجائے ڈیرہ غازی خان،راجن پور یا تونسہ شریف میں موجود ہوتے۔
تبصرہ لکھیے