ڈیلس کا شمار امریکا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے جس کا اندازہ اس کے وسیع و عریض ائیر پورٹ سے ہی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی پندرہ برس قبل یہاں کا آخری چکر لگا تھا، شاعروں کا خاصا بڑا گروپ تھا لیکن مرکزی میزبان نادر درانی اور ان کی ان سے بھی زیادہ مہمان نواز بیگم نے جس بھرپور طریقے سے مہمانوں کی پذیرائی کی، اس کا خوشگوار احساس ابھی تک حافظے میں محفوظ تھا.
لیکن باوجود کوشش کے، اس بار ان سے رابطہ نہ ہوسکا کہ ہمارے میزبان برادرم علی عدنان کا ذوقی تعلق موسیقی کے شعبے سے تھا اور وہاں قیام کا عرصہ اس قدر محدود تھا کہ یونس اعجاز اور جاویدغامدی صاحب سے ملاقات کا ارمان بھی دل ہی دل میں رہ گیا۔ وقت کی مزید تنگی کا سبب عزیز دوست نوجوت عرف زویا بھی بنی کہ وہ ہوسٹن سے پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کرکے ملنے کے لیے آرہی تھی، نوجوت اور اس کی سہیلی رفیعہ سے پہلی ملاقات کوئی بیس برس قبل ہیوسٹن کے ایک مشاعرے میںہوئی تھی، نوجوت کا تعلق پٹیالہ کے ایک نامور سکھ گھرانے سے ہے، اس کے والد انگریزی کے سینئر پروفیسر ہیں، وہ خود ریاضی کی استاد ہے اور اس کا میاں انمول ایک کامیاب بزنس مین ہے۔ اُردو اس نے اپنے شوق سے سیکھی اور اس کا یہی شوق ہماری دوستی کا باعث بنا۔
طے یہ پایا کہ وہ تقریب کے روز سیدھا علی عدنان کے گھر آئے گی، وہاں ملاقات اور دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر اس کے ہوٹل میں محفل جمے گی جو وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ہیوسٹن سے ایک نوجوان سکھ موسیقار سنی اس کے ساتھ آیا تھا جو علی عدنان کے شوقِ میوزک کی وجہ سے پہلے سے آپس میں متعارف تھے چنانچہ پانچ منٹ کے اندر اندر محفل ایسی جمی جیسے سب بچپن کے دوست ہوں۔ علی عدنان کی بہت ہی ملنسار اور خوش مزاج بیگم اور اس کے دوستوں نے رہی سہی کسر پوری کردی، اُن کا بیٹا بیٹی دوسرے شہروں میں جاب کر رہے تھے، اس لیے وہ خود تو نہ آسکے مگر ان کی موجودگی کا احساس ہمہ دم ساتھ رہا کہ بقول علی عدنان اس کی بیٹی نے مہمانوں کے کمرے میں کھانے پینے کی چیزوں کا ایک پورا سیٹ مستقل طور پر لگا رکھا ہے تاکہ مہمان کو ہر چیز کسی بھی وقت بغیر مانگے اور فوراً مل جائے، سو میں نے اور شوکت نے اس عزیزہ کے اس خوب صورت آئیڈیے کی داد اس طرح سے دی کہ اس کا حق ادا ہوگیا۔
ڈیلس کی یہ تقریب مشاعرے سے قطع نظر میرے اور شوکت فہمی کے ساتھ ایک شام تھی سب کے سب حاضرین باقاعدہ مدعو شدہ تھے اور شعر و ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والے تھے چنانچہ ہمیں بھی سنانے میں مزہ آیا اور میں نے ا پنی بیاض کے کچھ ایسے صفحے بھی کھولے جو عام طور پر بند ہی رہتے ہیں مثال کے طور پر یہ شعر کہ
بھنور میں کھوگئے ایک ایک کرکے ڈوبنے والے
سرِ ساحل کھڑے تھے سب تماشا دیکھنے والے
خدا کا رزق تو ہر گز زمیں پر کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے مگر یہ بانٹنے والے
اور ان کے ساتھ ساتھ اس طرح کے بھولے بھٹکے شعر بھی کہ
تمہارے آنے کا سنتے ہی گھر کی چیزوں کو
کبھی اُٹھاتے کبھی پھر سے لاکے رکھتے ہیں
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
لیجیے میزبان علی عدنان کا پورا تعارف تو آپ سے کرانا میں بھول ہی گیا، ان سے میرا اولین تعارف چند برس قبل لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ہوا تھا جہاں انھوں نے موسیقی سے متعلق اپنے جنون نما شوق کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسی حوالے سے میرا ایک انٹرویو بھی کیا، اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ وہ ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر عمر عادل کے بھائی ہیں، اب جو میں نے ان کے گھر کو دیکھا تو اس سب میں بھی بہت سی باتیں عمر عادل کے گھر سے مشترک نکلیں، اسی طرح سب دیواریں مختلف طرح کے جدید اور قدیم خوب صورت اور انوکھے ایسے شہ پاروں سے بھری پڑی ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
پی ٹی وی سے اپنے اتنے قریبی ساتھ اور لمبے تعلق کے باوجود میرے لکھے ہوئے بہت سے ڈرامے اور گیت میرے پاس اس لیے محفوظ نہیں ہیں کہ یہ یا تو پی ٹی وی کے ریکارڈ سیکشن میں اپنا اتہ پتہ کھوچکے ہیں یا کسی نہ کسی وجہ سے مکمل طور پر ضایع ہوچکے ہیں۔ علی عدنان کا پہلا کمال تو یہ دیکھنے میں آیا کہ انھوں نے میوزک کی حد تک میرے بیشتر آئٹم تلاش کرکے مجھے واٹس ایپ کردیے ہیں اور اب وہ میرے پاس محفوظ ہیں البتہ یہ بات اپنی جگہ پرمحلِ نظر ہے کہ اتنی بڑی کارپوریشن اور اتنے بے شمار کارندے ہونے کے باوجود پی ٹی وی کے پاس ان کا مکمل ریکارڈ کیوں نہیں ہے۔
ڈیلس سے ہمیں نیو یارک جانا تھا، 22جولائی کو ہمارے Helping Handsوالے دوست شاہد حیات صاحب کی ایک نئی تنظیم کا فنڈ ریزر تھا، گزشتہ روز حلقہ ارباب ذوق نیویارک کا خصوصی مشاعرہ تھا جو اس کی دسویں سالگرہ کا حصہ تھا اور اس سے گزشتہ روز نیو جرسی میں برادرم خطیب کا ترتیب کردہ مختصر مشاعرہ تھا جہاں ہمیں اگلا دن شکور عالم بھائی کے ساتھ گزارنا تھا، ان سب کی تفصیل انشاء اﷲ اس سلسلے کے آخری کالم میں۔
تبصرہ لکھیے