وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سوات میں طالبان کے آنے کی اطلاعات ہیں پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کا ہر ممکن دفاع کیا جائے گا ،دوسری طرف وفاقی حکومت نے سوات ،میراں شاہ اور میر علی میں فریقین سے بات چیت کیلئے 16رکنی جرگہ تشکیل دیا ہے .
جرگے میں پیپلز پارٹی ،اے این پی اور جماعت اسلامی کے رہنماء شامل ہیں۔وزیراعظم میاں شہبازشریف نے جرگے کی منظوری دے دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کے اداروں کے خلاف برسرپیکار ہیں ،ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں،ان سے مذاکرات کا کیا مطلب ؟تھوڑا سا پس منظر میں جائیں تو 2014ء حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے تھے ،بعد ازاں یہ مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے مگر معاملہ وہیں کا وہیں کا کھڑا ہے ۔2014ء میں عمران خان مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے ۔اب معاملات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ عمران خان کو بھی کہنا پڑا کہ خیبرپختوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر حیرت ہے۔ عمران خان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے کوئی سازش لگ رہی ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اب بھی اس بات کا یقین نہیں کہ ٹی ٹی پی اس طرح کھل کر سامنے آسکتی ہے۔
ہمیں دہشتگردی کرنے والوں سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے۔ڈی آئی خان،ٹانک کے لوگ ضیاء الحق دور سے لیکر آج تک دہشتگردی کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ آج بھی جاری ہے ،سینکڑوں لوگ شہید ہو چکے ہیں،ہزاروں خاندان ان علاقوں سے ہجرت کرگئے ہیں،خیبرپختونخواہ میں 9سال سے تحریک انصاف برسراقتدار ہے مگر آج تک کوئی قاتل نہیں پکڑا گیا ،کسی مقتول کے وارث کو انصاف نہیں ملا۔ سوال یہ ہے کہ طالبان کس نے پیدا کیے ؟ضیاء الحق دور میں امریکہ سے ڈالر اور اسلحہ کس نے لئے؟ اور پاکستان میںبم دھماکے کرنے والے کون تھے؟ عمران خان خود کہتے ہیں کہ ان دھماکوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے ، کھربوں کی املاک کا نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جب بھی تحقیق ہوگی تو اس کی ذمہ داری انہی لوگوں پر عائد ہوگی جن سے مذاکرات کیے جاتے ہیں اور ان کو مجاہدین کا نام دیکر طرح طرح کی نوازشات دی جاتی ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے ضلع دِیر میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی کو قتل کیا گیا ،سڑکیں بند کی جارہی ہیں ،احتجاج ہورہے ہیں ،امن و امان کی صورتحال خراب ہے ،سوات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اغواء ،ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری کی کارروائیاں بڑھ چکی ہیں مگر حکومت خاموش ہے ،پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان ،ٹانک تک ہونیوالی کارروائیوں کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھا جائے تو پوری کہانی سامنے آجائے گی۔حکومت پاکستان کو دہشتگردوں کے خلاف آہنی ہاتھ نمٹناہوگا اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم بند ہونی چاہئے تاکہ نیشنل ایکشن پلان پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ ایک طرف پاکستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال درپیش ہے تو دوسری طرف دوسری طرف شہباز گل اداروں کے خلاف بولنے پر گرفتار ہیں ۔
سابق وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ شہباز گل نے اداروں کے خلاف جو زبان استعمال کی اُسے نہیں کرنی چاہئے تھی ۔عمران خان نے بھی کہا ہے کہ شہباز گل کے خلاف قانون کے دائرہ رہتے ہوئے کارروائی ہونے چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ نوازشریف نے اداروں کے خلاف جو زبان استعمال کی ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی ؟لیکن پی ٹی آئی کو معلوم ہونا چاہئے کہ نوازشریف کی اقتدار سے سبکدوشی ،نااہلی ،جعل یاترہ اور اور جلا وطنی سب سزا کی کڑیاں ہیں۔ وسیب کی دیگر خبروں میں ایک خبر یہ ہے کہ نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر جھوک سرائیکی ملتان میں تقریب منعقد ہوئی جس میں طلباء اور نوجوانوں نے شرکت کی ۔اس موقع پر مقررین نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 12اگست 1985ء کو نوجوانوں کا عالمی دن قرار دیا اور ،آج کے دن کا تقاضا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس یونین پر عائد پابندی ختم ہونی چاہئے۔
اجلاس میں روزنامہ 92 نیوز کے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف کو سی پی این ای پنجاب کمیٹی کا چئیرمین مقرر ہونے پر مبارکباد دی گئی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے احمد پور شرقیہ کیمپس کے افتتاح پر خوشی کا اظہار کیا گیا ۔وزارت اطلاعات کے سینئر آفیسر سلیم بیگ کو دوبارہ چیئرمین بنانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ۔گزشتہ روز 11اگست کو معروف ماہر تعلیم شمیم عارف کی قریشی برسی کے موقع پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ایک قرار داد کے ذریعے جشن آزادی ٹرین میں سرائیکی ثقافت کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس موقع پر یہ بھی مطالبہ کیا گیا جشن آزادی کے موقع پر وسیب کی خدمات کو تسلیم کیا جائے اور قیام پاکستان کیلئے دامے ،درمے ،سخنے قربانیاں دینے والے وسیب کے مشاہیر کو نصاب میں شامل کیا جائے اور ماچھکہ صادق آباد کے مقام پر دریائے سندھ میں بارات کشتی ڈوبنے کے واقعہ پر حکومتی بے حسی پر تشویش ظاہر کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ لواحقین کو 10,10لاکھ روپے امداد دی جائے۔
تبصرہ لکھیے