11 اگست کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی دن اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا تھا کہ بلا رنگ ، نسل و مذہب پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے حقوق مساوی ہونگے۔
قائد اعظم کے خطاب سے اقلیتوں کو بہت حوصلہ ملا تھا لیکن 1973 ء کے آئین میں بہت سی دفعات پر اقلیتوں کو تحفظات ہیں ۔ ان تحفظات کو دور کیا جانا ضروری ہے کہ اگر پاکستان میں امتیازی قوانین ہونگے تو اس کا نقصان ہندوستان اور دیگر ملکوں میں رہنے والے مسلم اقلیتوں کو ہوگا کہ ایک لحاظ سے وہ بھی امتیازی قوانین بنائیں گے ۔ سٹیٹ ماں ہوتی ہے اور اس میں رہنے والے سب بیٹے تو ماں کو سب سے برابر پیار ہوتا ہے اور ماں کے بیٹے بھی اپنی ماں دھرتی کو مقدس جانتے ہیں ۔ گلستان کی خوبی اس کے مختلف پھولوں ‘ مختلف رنگوں اور مختلف خوشبوؤں سے ہوتی ہے ۔
پاکستان کو بھی اسی طرح کا گلدستہ ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ میںنے عرض کیا کہ11 اگست 1947ء کو قائد اعظم نے اقلیتوں کے مساویانہ حقوق کی بات کی ، انہوں نے اپنی کابینہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا ۔ قیام پاکستان کے دو سال بعد جوگندر ناتھ منڈل نے استعفیٰ دیدیا ۔ جوگندرل پال منڈل کے حوالے سے دو باتیں توجہ طلب ہیں ، ایک یہ کہ قائد اعظم نے خود ایک غیر مسلم کو وزیر قانون بنایا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو انتہا پسند سٹیٹ نہ بنانا چاہتے تھے ۔ اس امر میں تو ابہام کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے اور اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہی اس کے آئین میں قرآن و سنت کے ان ابدی احکامات کے نفاذ اور متابعت کی ضمانت دی گئی ہے جو اللہ رب العزت نے اپنے پیارے رسول نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی وساطت سے نوع انسانی کی ہدایت کے لئے نازل فرمائے۔
جس طرح ریاست مدینہ میں غیر مسلموں کو احکامات الٰہی کے عین مطابق تمام شہری حقوق سے سرفراز کیا گیا تھا اسی طرح دستور پاکستان میں بھی غیر مسلم اقلیتوں کو مذہب، عقیدے اور رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر وہ سارے حقوق دیئے گئے ہیں جو اکثریت کے لئے روا ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہود و ہنود کی طاقتور لابی اور اسلام دشمن قوتوں کے مخالفانہ عزائم کے زیر اثر پاکستان کے اس حقیقی امیج کو نقصان پہنچانے کے لئے بعض حلقوں کی جانب سے منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بہت سی اقلیتیں آباد ہیں جن کا اپنا اپنا مذہب، اپنے اپنے عقائد اور اپنی اپنی ثقافتی اقدار ہیں۔ یہاں بڑی اقلیتوں میں ہندو اور مسیحی شامل ہیں۔ ان دونوں بڑی اقلیتوں کے علاوہ بہائی، پارسی، قادیانی، بودھ اور دیگر عقائد کے لوگ بھی ہیں۔ قائد اعظم کا اقلیتوں کے متعلق وژن بڑا واضح تھا،انہوں نے قومی پرچم میں سبز رنگ کے ساتھ سفید رنگ شامل کرایا جو اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
11اگست 1947کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں جسے چارٹر آف پاکستان بھی قرار دیا جاتا ہے، انہوں نے جان و مال کی سلامتی سمیت اقلیتوں کے تمام شہری حقوق کے تحفظ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آپ کسی بھی مذہب، فرقے، ذات یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں، آزادی سے اپنے مندروں، گرجا گھروں یا عبادت گاہوں میں جا سکتے ہیں اور اپنی اقدار پر عمل کر سکتے ہیں۔ عظیم قائد نے اپنی دور اندیشانہ حکمت عملی کے تحت تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے احترام، برابری کی بنیاد پر حسن سلوک تحمل برداشت اور مملکت کی تعمیر و ترقی میں مل جل کر بھرپور حصہ لینے کا درس دیا جو اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ لہٰذا 1973ء کے آئین میں اقلیتیوں کے خلاف جو امتیازی قوانین بنے ، وہ قائد اعظم کی سوچ کے بر عکس تھے ۔ دوسرا یہ کہ 11 عالمی سطح پر اگست اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا تو جاتا ہے مگر حقوق دیئے نہیں جاتے ۔
حکمرانوں کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ، وہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کی خدمات کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں سب سے بڑا مسئلہ انتقال آبادی تھا ۔آزادی کے بعد دونوں حکومتوں نے تبادلہ آبادی کی سکیم تیار کی لیکن غیر دانشمندی کا ثبوت یہ دیا گیا کہ انتقال آبادی کا محفوظ پلان تیار نہ ہو سکا ، پھر دونوں ملکوں میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں طرف سے لاشیں گرنے لگیں ۔ ہندوستان خصوصاً مشرقی پنجاب سے سب سے زیادہ مہاجرین آئے ،ایک اندازے کے مطابق 70 لاکھ آبادی کا ہندوستان سے انخلا ہوا ۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سپین سے تین لاکھ مسلمانوں کو وطن چھوڑنا پڑا۔
روس اور جرمنی سے 70 ہزار یہودی نکالے گئے اور فلسطین سے ڈیڑھ لاکھ مسلمان ملک بدر ہوئے ۔ پاکستان سے جانیوالے ہندوئوں کی تعداد ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھی ۔لوگوں نے پاکستان کے لئے انڈیا سے آنے والے پناہ گزینوں اور لُٹے پُھٹے مہاجرین کے قافلوں کو صرف پناہ ہی نہیں بلکہ اپنی قیمتی املاک ، اراضی اور جائیدادیں بھی دیں اور کسی بھی مقامی شخص نے آج تک کسی طرح کا احسان نہیں جتایا حالانکہ وہ اچھائی اور احسان کرنے والے تھے۔ اگر تقسیم کے وقت پاکستان کے قومی مسئلے کا ادراک کر لیا جاتا ، بنگالیوں اور دوسری تمام قوموں کو ان کی زبان ، ثقافت اور شناخت کا حق مل جاتا تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا اور نہ مغربی پاکستان خلفشار کا شکار ہوتا۔
یوم آزادی کے موقع پر ضروری ہے کہ آزادی کے حالات و واقعات کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے اور مقامی افراد کی قربانیوں کا تذکرہ بھی نصاب اور تاریخ کی کتب میں شامل کیا جائے ، آج نئے مکالمے اور نئے بیانیے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
تبصرہ لکھیے