آج ہم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی عظیم قربانی کو یاد کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، شہادت کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ حضرے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری، جرات، استقامت اور مقصد کے لیے ڈٹے رہنے کے لازوال جذبے کو یاد کرتے ہیں۔
کس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت قبول کی لیکن حق کے راستے سے الگ نہیں ہوئے۔ تکالیف برداشت کرتے ہوئے شہادت کے فلسفے کو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایک مثال بنا دیا۔ آج ہم کربلا کے شہداء کو یاد کر رہے ہیں۔ حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کے جذبے کو بھی یاد کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیمات پر عمل سے بہت دور ہیں۔ ہمارے مسائل کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم باتیں کر رہے ہیں اور عمل نہیں کر رہے۔ دنیا بھر ہمیں مار پڑ رہی ہے اور ہم کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ آج جب ہم شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد کر رہے ہیں اور یزیدی طاقتوں پر بات کر رہے ہیں تو شاید ہم بھول رہے ہیں کہ دشمنان اسلام ہر طرف سے ہر انداز میں حملہ آور ہو رہے ہیں۔
زیادہ دور نہ جائیں زیادہ وقت نہیں گذرا شاید چند گھنٹے یا چند گھنٹوں سے کچھ زیادہ وقت جو ظلم و بربریت فلسطین میں ہوئی ہے کیا اس کا کوئی جواز ہے۔ مسلم خون اتنا سستا ہو چکا ہے کہ دہائیوں سے بہتا جا رہا ہے اور بالخصوص ہر سال محرم الحرام کے پہلے دس دنوں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کو یاد کرنے والے مسلمان کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ فضائی حملے جہاں ایک اور بحران کا اشارہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو بھی للکار رہے ہیں کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو روک کر دکھائے۔
اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی میں مہاجر کیمپ کو نشانہ بنایا اس حملے میں نو افراد شہید ہوئے۔صیہونی فوج نے اڑتالیس گھنٹوں میں چھ فلسطینی بچوں سمیت متعددافراد کو شہید اور دو سو سے زائد افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ روس کے یوکرائن حملے پر چیخنے والوں کو فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں میں شاید کچھ غلط نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ جب بھی فلسطینیوں پر ظلم ہوتا ہے عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔اسرائیلی فوج نے اسلامی جہاد کی سینئر قیادت کو ختم کر دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنے کی دھمکیاں دیتی ہے لیکن کسی کو خیال نہیں آتا۔ غیروں سے کیا گلہ کرنا ہے ہمارے اپنے بھی اتنے بے حس ہوئے پڑے ہیں کہ کسی میں کچھ کرنے کی جرات نہیں ہے۔
آج یہ بات کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ محرم الحرام میں فلسطین پر فضائی حملے باقاعدہ طور پر ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ حملے کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ کون سا مہینہ ہے اور ہماری غیرت کو للکار رہے ہیں اور ہم دبکے بیٹھے ہیں۔ فلسطینوں پر حملے کرنے والے دراصل عالم اسلام پر حملہ آور ہیں اور امت مسلمہ خرگوش کی طرح آنکھیں بند کر کے سمجھتی ہے کہ وقت گذر جائے گا اور کچھ نہیں ہو گا اگر کھڑے نہیں ہوں گے تو سب کی باری آئے گی۔ سب کا نمبر لگے گا اگر آواز بلند نہیں کریں گے، متحد نہیں ہوں گے جواب نہیں دیں گے تو دشمن سنی، شیعہ، اہلحدیث بریلوی دیکھ کر نہیں بلکہ صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والوں کو نشانہ بناتا چلے جائے گا یہاں تک کہ یہ آگ ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم سوچیں آخر ہمارے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ یہ محرم الحرام ہے ہم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کو یاد کر رہے ہیں کیا ہم بھول گئے ہیں کہ امام حسینؓ نے ڈٹ جانے کا سبق دیا تھا اور ہم دبکے بیٹھے ہیں، ہم کب تک وسائل کا رونا روتے رہیں گے اور مسلمان بھائیوں، بہنوں اور معصوم بچوں کا بہتا ہوا خون دیکھتے رہیں گے۔
سعودی عرب نے غزہ اسرائیلی فوج کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے کشیدگی ختم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔پاکستان نے بھی شدید مذمت کرتے ہوئے حملوں کو غیر قانونی اقدامات کی مثال قرار دیا ہے اور اسرائیل کو فلسطینوں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے روکنے کے لیے عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ مسرت چلے جاتے ہیں اور ہم درخواستیں کرتے جا رہے ہیں۔ جانے یہ سلسلہ کب رکے گا۔
ان حالات کا سامنا صرف فلسطین کے مسلمانوں کو ہی نہیں ہے بلکہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھی دہائیوں سے بھارتی افواج کی جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہاں بھی کوئی روکتا نہیں ہے بالخصوص بھارت کی طرف سے پانچ اگست کے غیر قانونی اقدامات کے بعد تو نماز جمعہ، عیدین اور عاشورہ کے جلوسوں پر بھی بھارتی فوج نے طاقت کا استعمال کیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بھارتی افواج کشمیریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کر رہی ہے۔ لاکھوں کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔
کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بن گئی ہے لیکن کسی کو تکلیف نہیں، اس میں کسی کو برائی نظر نہیں آتی اور ہم آج بھی شہادت امام حسین کو یاد کر رہے ہیں۔ نہ ہم نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے، نہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، نہ ہم اندرونی غداروں کا قلع قمع کرتے ہیں نہ اسلام دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں پھر ہم شکوے کس سے کرتے ہیں۔ واقعہ کربلا سے ہمیں جرات اور بہادری کا جو سبق ملتا ہے کیا ہم اس پر قائم ہیں اگر ہم اس پر قائم نہیں ہیں تو پھر ہمیں اپنے قول و فعل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے