1945میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی، یہ سرد جنگ تھی جس کے فریقین امریکہ اور روس تھے ۔ روس میں اشتراکیت جنم لے چکی تھی اور اشتراکی انقلاب پورے یور پ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا ۔
دوسری طرف امر یکہ بھی دنیا کی ٹھیکیداری کے خواب دیکھ رہا تھا ، ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی نے پوری دنیا کو خوفزہ کر دیاتھا ۔دونوں طاقتیں دنیا کی ٹھیکیداری کی خواہش مند تھیں ، ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے انہوں نے میدان جنگ میں لڑنے کی بجائے نظریاتی جنگ کا آغاز کیا۔ روس اشتراکیت کا علمبردار تھا اور امریکہ نے سرمایہ داری کا علم تھاما ہوا تھا۔ دنیا کی اکثریت سرمایہ دارنہ نظام کی تحت چل رہی تھی ، سٹالن کو خطرہ تھا اگر ہماری سرحدیں کھلی رہی تو سرمایہ دارانہ نظریات یہاں بھی پہنچ جائیں گے چناچہ اس نے اشتراکیت پر مشتمل بلا ک کو منجمد کر دیا ۔ سرحدیں بند کردی ، مذہب سمیت ہر طرح کے نظریات پر پابندی لگا دی اور ابلاغ کے تمام ذرائع کواپنے کنٹرول میں لے لیا ۔
اس دور میں’’آہنی پردے‘‘ کے نام سے ایک اصطلاح مشہور ہو ئی جس کا مطلب تھا کہ اشتراکیت پر مشتمل بلا ک سے کوئی بندہ باہر نکل سکتا تھا نہ ہی اندر جا سکتا تھا ۔یہ پابندیاں لمبا عرصہ جاری رہیں، اہل مذہب کے لیے یہ صورتحال پریشان کن تھی ، مسلمانوں نے اشتراکیت کے دور میں کتنی سختیاں برداشت کیں اور نئی نسل تک اسلام کیسے منتقل کیا ہے یہ بہت خوفناک داستان ہے اور یہ ہمارا موضوع نہیں ۔ عیسائیت نے ’’آہنی پردوں ‘‘ میں قید ان ریاستوں میں اپنے مذہب کا تحفظ اور تبلیغ کیسے کی یہ میں آپ کوبتانا چاہتا ہوں ۔ عیسائی مشنریاں کو جب علم ہوا کہ روس میں عیسائیت کی صورتحال پریشان کن ہے تو انہوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے پورا ایک پلان تشکیل دیا ، انہوں نے امریکہ کے ایک دور دراز علاقے میں روسی طر زمعاشرت پر پورا ایک شہر آباد کیااور ملک بھر سے ذہین ترین پادریوں کو اکٹھا کر کے اس شہر میں بسا دیا۔
اس شہر میں روسی زبان بولی جاتی تھی ، اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا اور رہن سہن سب روسی طرز پر ہوتا تھا ۔پادریوں کی شکل و صورت اور وضع قطع بھی روسیوں جیسی بنائی گئی اور جب یقین ہوگیا کہ یہ لوگ زبان ، عادات و اطوار اور ہر لحاظ سے روسی دکھائی دیتے ہیں تو انہیں ایک وسیع صحرا میں پیرا شوٹ کے ذریعے جہاز سے اترنے کی پریکٹس کروائی گئی ۔جب ہر لحاظ سے ٹریننگ مکمل ہو گئی تو ہوائی جہازوں کے ذریعے انہیں روس کے دور دراز علاقوں میں اتار دیا گیا ۔یہ پادری جان ہتھیلی پر رکھ کر روس میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہے ، جب مشن مکمل ہوا تو یہ سمجھائے گئے جغرافیے کے مطابق ایک جگہ اکٹھے ہوئے جنہیں ایک جہاز کے ذریعے ریسکیو کر کے واپس امریکہ لایا گیا ۔یہ واقعہ کیا ثابت کرتا ہے ؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ اپنے مشن کی تکمیل اور مذہب کے تحفظ و تبلیغ کے لیے آخری حد تک کوشش کرنی پڑتی ہے ۔
بحران اور چیلنجز کے زمانے میںروایتی طریقوںکی بجائے نئے اندازسے کام کرنا پڑتا ہے۔ایک راستہ مسدود ہو جائے تو نئے راستے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ زندگیاں وقف کرنی پڑتی ہیں اور اسٹیٹس کو سے نکل کر انقلابی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں ۔ یہ عیسائی مشنریاں چاہتی تو امریکہ میں بیٹھ کرایک دو جلسہ کر لیتی ، احتجاج کی کال دے دیتی ، ملین مارچ کی دھمکی دے دیتی یا ایک آدھ جلوس نکال کر بیٹھ جاتی مگرانہوں نے ایسا نہیں کیا ۔وہ آہنی پردوں کا بہانہ بنا کر محض کوشش کا مکلف ہو کر نہیں بیٹھے بلکہ انہوں نے دنیا بھر سے ذہین ترین پادری اکٹھے کیے ، ریاستی اور غیر ریاستی ذرائع سے فنڈنگ مہیا کی ،تمام دستیاب اسباب اختیار کیے، دور دراز علاقوں اور صحراؤں میں پلاننگ کی اورپادریوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے علاقوں میں جانے کی ہمت کی ۔ یہ انہی کوشش کا نتیجہ ہے کہ روس میں آج بھی آرتھو ڈوکس چرچ سب سے بڑا مذہب ہے ۔
آج دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی کیا صورتحال ہے یہ کوئی سیکرٹ راز نہیں ،صرف پاکستان کو دیکھ لیں، ہماری یونیورسٹیاں الحاد کی آماجگاہیں بن چکی ہیں ،اسکول کالجز میں پڑھایا جانے والا نصاب مغربی تصورات پر قائم ہے ،نسل نو دین بیزاری پر فخر کررہی ہے ، سوشل میڈیا پر الحاد پھیلایا جا رہا ہے اور مذہب و اہل مذہب کا مذاق اڑانافیشن بن چکا ہے ۔فلم اور ڈرامہ انڈسٹری نے تہذیب و اقدار کو کچل کر رکھ دیا ہے ، خاندان اور فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے اور رہی سہی کسر ٹک ٹاک اور دیگر فحش ایپس نے پوری کردی ہے ۔الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پردین بیزار اور سرمایہ داروں کا تسلط ہے اور نسل نو دین سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ان تمام چیلنجز کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ سماج کی دین سے دور، الحاد اور مغربی تہذیب ہیں۔پاکستان میں ان چیلنجز کو رسپانڈ کرنے کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے کیونکہ علماء اور دینی مدارس مذہب کی نمائندگی کی علامت ہیں۔
اب سنجیدہ سوال یہ ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہل مذہب کیا کردار ادا کررہے ہیں ؟تبلیغی جماعت اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک لمحے کے لیے سائیڈ پر کر دیں کہ ان کا اپنا طریقہ کار اور ترجیحات ہیں ، ان کے علاوہ پاکستان میں ہزاروں مدارس اور لاکھوں علماء و عالمات ہیں مگر یہ اپنی ذمہ داری کے لیے آگے کیوں نہیں بڑھ رہے ؟ پاکستان میں مدارس کے چار پانچ بورڈ ہیں ، صرف وفاق المدارس کے تحت ہزاروں مدارس اور لاکھوں طلباء رجسٹرڈ ہیں ، اس کے علاوہ ملک کے ہربڑ ے شہر میں نامور دینی ادارے موجود ہیں ، کئی مدارس ایسے ہیں کہ انہیں وسائل کا بھی مسئلہ نہیں مگر اس کے باوجود بے دینی ، الحاد اور مغربی تہذیب کے سامنے بند باندھنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ۔سوال یہ ہے کہ ہم روایتی انداز کی بجائے وقت کے تقاضوں کے مطابق منصوبہ بندی کرنے کوکیوں تیار نہیں ،اسٹیٹس کو سے نکل کر مشنری جذبے کے تحت کام کیوں نہیں کیا جا رہا ۔ہم کوشش کا مکلف ہو کر بیٹھنے سے کیوں نہیں ڈر رہے اور ہمیں حالات کی سنگینی کا اندازہ کیوں نہیں ہو رہا ۔ کم از کم عیسائی مشنریز جتنا جذبہ اور منصوبہ بندی ہی کر لی جائے ، افراد سازی اور نصاب سازی جیسے مسائل پر توجہ دے دی جائے اور نسل نو کی دینی تربیت اور ان کا ایمان بچانے کا ہی سوچ لیا جائے ۔
اس مایوس کن صورتحال میں جامعۃ الرشید ایک ادارہ ہے جہاں کم از کم مسائل کا ادراک بھی ہے ، وقت کے تقاضوں کا فہم بھی اور مشنری جذبہ بھی ۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ ایک مدرسے کے تحت 35سے زائد شعبے چل رہے ہیں ۔حفظ ، درس نظامی، کلیہ الشریعہ،حفاظ عریبک، حفاظ انگلش، اسکول ، کالج اور عنقریب یونیورسٹی چارٹر ۔الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے میدان میںگرانقدر خدمات، جے ٹی آر، حلال فوڈ پروگرام، شریعہ اور بزنس کے تحت تجار کی راہنمائی ، شعبہ تخصصات کے تحت دسیوں نئے علوم وفنون کی تعلیم و تربیت ، الاحسا ن کورسز،یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماویٰ ہومزاور عنقریب سی ایس ایس پروگرام کا اجراء ۔ ایک سال قبل مجمع العلوم الاسلامیہ کے نام سے اٹھایا جانے والا قدم بھی اہم پیش رفت ہے۔صورتحال یہ ہے کہ موجودہ نصاب کو پڑھ کر ہر سال ہزاروں علماء اور عالمات نکل رہے ہیں مگر وہ سماج میں کام کرنے کے اہل نہیں ۔
وہ اپنے وقت کی زبان اور محاورے سے نا آشناہیں ، وہ مدعو کی نفسیات سے واقف نہیں اور وہ سماج کے مختلف طبقات کو مخاطب بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور اس پر مستزاد بے روزگاری کے مسائل ہیں۔یہ وہ حقیقتیں ہیں جو پچھلی نصف صدی سے ہمارا منہ چڑا رہی تھی مگر کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا۔ حضرت مدنیؒ، حضرت شیخ الہندؒ،حضرت تھانویؒاور حضرت بنوریؒ جیسے اکابر لکھتے چلے گئے مگر کوئی اسٹیٹس کو سے نکلنے کو تیار نہیں تھا۔ اگرچہ اس اقدام پر بہت زیادہ نقد ہوا اور میں نے خود اس پر تفصیلی نقد لکھا تھامگراتنی بات طے تھی کہ مدارس کے نصاب و نظام میں مناسب تبدیلی کی ضرورت تھی ۔
ان حضرات کے بعض اقدامات اور خدمات کے حوالے سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر اتنا کریڈٹ تو ان کو دینا چاہئے کہ یہ لوگ مشنری جذبے اور وقت کے تقاضوں کے تحت کام کر رہے ہیں ۔یہ افراد سازی اور نصاب سازی سمیت مختلف محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ اپنی ہمت اور وسائل سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان سے کوئی اجتہادی خطا ہوجائے گی ، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے اور کوئی کام نہ کرے ۔ ملک و ملت اور مذ ہب و اہل مذہب کے حوالے سے ان کی خدمات اور ان کا سوز قابل تحسین ہے ۔
قدرت کا اصول ہے کہ محنت کرنے والوں کی محنت رائیگاں نہیں جاتی ،یہ چالیس سال بعد بھی رنگ لے آتی ہے۔بلکہ انسانی سماج پر جو محنت کی جاتی ہے وہ بدیر ہی رنگ لاتی ہے۔میری دعا ہے کہ یہ حضرات جو محنت کر رہے ہیں وہ ملک وملت کے حق میں بارآور ثابت ہو اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کو بھی امت اورملک وملت کی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہو جائے ۔
تبصرہ لکھیے