کابل شہر کے بیچوں بیچ، جادۂ شہید کے اطراف میں شیر پور کا خوبصورت علاقہ ہے، جس میں کابل کے امراء اور اشرافیہ رہائش رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے ساتھ شہر نو پارک ہے جہاں ایک زمانے میں مر دو زن، روح پرور مناظر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ’’قصرِ بختاور‘‘ کے شاپنگ مال اور ’’ہمیشہ بہار شنواری ریسٹورنٹ‘‘ میں خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے تھے۔ اس علاقے سے تھوڑی ہی دُور ایوانِ صدارت ہے.
لیکن شیر پور کے بالکل پڑوس میں کینیڈا، ناروے اور تاجکستان کے سفارت خانے ہیں۔ شیر پور کے ایک چار منزلہ مکان کی اس بالکونی کی تصاویر اس وقت مغربی میڈیا میں دکھائی جا رہی ہیں جس پر ایک ڈرون سے اتوار 31 جولائی کے دن دو میزائل داغے گئے۔ اس مکان میں سترہ کمرے ہیں اور ایک بہت بڑا بیسمنٹ ہے۔ گھر کا بیرونی نقشہ بالکل نوے کی دہائی میں پاکستان میں بننے والے گھروں جیسا ہے۔ آپ اگر اس گھر کی تصویر کسی پاکستانی کو دکھائیں تو وہ یہی سمجھے گا جیسے لاہور کی کسی ہائوسنگ سکیم میں بننے والا کوئی گھر ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں یہ گھر بھارتی ایمبیسی میں موجود خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘ کے ’’سفارت کاروں‘‘ کا ’’سیف ہائوس‘‘ بتایا جاتا ہے۔ شیر پور کے علاقے میں ایسے کئی گھر تھے جنہیں ایسے ہی خفیہ مقاصد کے لئے بھارت اور دیگر ممالک کے سفارت خانے استعمال کیا کرتے تھے۔
اس گھر کی تصاویر کے ساتھ گہرے سلیٹی رنگ کے بادلوں میں گھرے آسمان میں اُڑتے ہوئے ایک ڈرون کی تصویر بھی میڈیا میں نظر آ رہی ہے۔ اس تصویر والے آسمان سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ کس شہر کی فضا ہے۔ اسی طرح ایک اور تصویر بھی ہے جس میں بہت دُور سے شیر پور کے علاقے کے کسی مکان سے دُھواں اُٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ہیں وہ تمام ثبوت جو ٹیکنالوجی سے لیس عالمی طاقت امریکہ نے ایمن الظواہری کے مارے جانے کے بارے میں فراہم کئے ہیں اور انہی ثبوتوں کی بنیاد پر پورا مغربی میڈیا یقین بھی کر رہا ہے اور ایک دفعہ پھر اس خطے کو آگ اور خون میں نہلانے کے لئے فضا بھی ہموار کر رہا ہے۔ ایسا کیوں؟ افغانستان کے ساتھ یہ سلوک دوسری دفعہ ہو رہا ہے۔ پہلی دفعہ افغانستان پر عالمی طاقتیں اس وقت حملہ آور ہوئیں جب مُلا محمد عمر رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں ستمبر 1994ء میں قائم ہونے والی طالبان حکومت نے پوری دُنیا پر یہ ثابت کر دیا تھا، کہ ایک جنگ زدہ اور قتل و غارت میں ڈوبے ہوئے افغانستان میں امن کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔
ملا محمد عمرؒ کے دو اقدامات نے تو پوری دُنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ افغانستان جہاں دُنیا کو فراہم کی جانے والی ستانوے (97) فیصد افیون کاشت ہوتی تھی اور بارڈر کے ساتھ ساتھ ہیروئن بنانے کی لاتعداد فیکٹریاں تھیں جہاں سے قافلے پوری دُنیا کو ہیروئن سپلائی کرتے تھے۔ ملا محمد عمرؒ کے ایک فرمان سے پورے افغانستان میں افیون کی کاشت صفر ہو گئی تھی۔ مغربی حکام جو کہ دہائیوں سے منشیات کی روک تھام (Narcotic Control) کی عالمی اور علاقائی تنظیموں میں کام کر رہے تھے وہ حیران تھے کہ ان کے پاس اس قدر وسائل ہیں، ملکوں کی افواج، فضائی نگرانی کے لئے ہیلی کاپٹر اور جہازوں سے مختلف ملکوں میں ٹھکانوں پر بمباری کے باوجود وہ کسی بھی ملک سے منشیات کے کاروبار کو ختم نہیں کرا سکے، لیکن یہ معجزہ افغانستان میں کیسے ہو گیا۔ دوسرا معجزہ امن و امان کے قیام کا تھا۔ امن قائم ہونے کے بعد، ملا محمد عمرؒ نے افغانستان کے عوام سے کہا کہ چونکہ طالبان حکومت میں اب کابل سے قندھار تک زیورات سے لدی پھندی ایک عورت بلا خوف اطمینان سے سفر کر سکتی ہے، اس لئے تمام شہری اپنا اسلحہ طالبان کے پاس جمع کروا دیں اس لئے کہ ہم اب امنِ عامہ کے ذمہ دار ہیں، اب کسی کو اسلحہ رکھنے کی حاجت نہیں ہونی چاہئے۔
دُنیا کے لئے یہ دوسرا مقام حیرت تھا کہ وہ افغان جو اسلحہ کو اپنا زیور تصور کرتے تھے، انہوں نے بخوشی اپنا اسلحہ طالبان کے حوالے کر دیا۔ پاکستان میں بھی جنرل معین الدین حیدر نے ناجائز (لائسنس والا چھوڑ کر) اسلحے کی واپسی کی مہم شروع کی تھی جو بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ افغانستان میں شرعی قوانین کی برکات تھیں کہ جسے ملیامیٹ کرنے کے لئے گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا الزام فوراً اس افغانستان پر لگایا گیا، جہاں ٹیلیفون لائن، انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر جدید ٹیکنالوجی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، گیارہ ستمبر کے چودہ ملزموں میں ایک بھی افغان شہری شامل نہیں تھا۔ لیکن پوری دُنیا نے جارج بش کے جھوٹ پر ایسے یقین کیا، جیسے کوئی صحیفہ آسمانی ہو اور افغانستان میں قائم اس شریعتِ اسلامی کے نظام کو روکنے کے لئے اس پر چڑھ دوڑے۔ کیونکہ خطرہ یہ تھا کہ اس نظام کی خوشبو کہیں اردگرد کے ممالک کو متاثر نہ کرے اور ان ملکوں کے عوام ویسے ہی نظام کی خواہش میں اُٹھ نہ کھڑے ہوں۔ آج بھی بالکل ویسی ہی صورتِ حال ہے۔
ایک سال قبل پندرہ اگست 2021ء کو قائم ہونے والی طالبان حکومت کے بارے میں پورے مغربی میڈیا کا یہ پراپیگنڈہ تھا کہ یہ حکومت چند ماہ میں زمین بوس ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے سے جھوٹ بلوایا گیا کہ اکتوبر 2021ء میں افغانستان میں ایک بہت بڑا المیہ جنم لینے والا ہے، لاکھوں افغان قحط اور بھوک کا شکار ہو کر مر جائیں گے اور جو زندہ ہوں گے ان کو علاج معالجہ کی سہولیات تک میسر نہ ہوں گی۔ افغانستان میں متحارب گروہ آپس میں اس شدت سے لڑیں گے کہ پڑوس کے ممالک خصوصاً پاکستان میں لاکھوں افغان ایک بار پھر ہجرت کریں گے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین نے ایک ایمرجنسی پلان بھی ترتیب دے دیا تھا۔ پاکستان کی ’’کامیاب‘‘ خفیہ ایجنسیوں نے ان امریکی اندازوں کی نقل کرتے ہوئے خود بھی رپورٹیں مرتب کیں اور وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ سطح اجلاسوں کے بعد وہ جگہیں بھی منتخب کی گئیں، جہاں ان افغان مہاجرین کو ٹھہرایا جانا تھا۔ امریکیوں کو اس بات کا بھی بہت زعم تھا کہ ہم وہاں اپنے بیس سالہ دَور میں ایک ایسا کلچر عام کر گئے ہیں جو جدید ہے اور ایک نشے کی طرح ہے۔
اس میں انٹرنیٹ ہے، ٹی وی چینل ہیں، فلمیں ہیں، رقص و سرود والے ہوٹل اور بار ہیں، مخلوط طرزِ زندگی ہے، غرض کابل کو ہر لحاظ سے ایک نیم یورپی ماحول والا شہر بنا کر آئے ہیں۔ جنسی آزادی اور اختلاط عام ہو چکا ہے، ایسے میں طالبان کے ’’دقیانوسی‘‘ اور فرسودہ ماحول کو کون تسلیم کرے گا، لوگ فوراً بغاوت پر اُتر آئیں گے۔ آج ٹھیک ایک سال کے بعد یہ تمام جائزے، اندازے غلط ثابت ہوئے اور آج کا افغانستان عالمی معاشی ناکہ بندی اور عالمی سفارتی بائیکاٹ کے باوجود خطے کا مستحکم ملک ہے۔ وہ تمام پیش گوئیاں اور اندازے امریکی، مغربی اور خصوصاً پاکستان کے ’’اعلیٰ دماغ‘‘ تجزیہ نگاروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ کابل دُنیا کا پرامن شہر ہے، جہاں جرم نہ ہونے کے برابر ہے۔ افغان طالبان کی سفارت کاری کا عالم یہ ہے کہ تاجکستان سے گیس اور ایران سے پٹرول لینے کے بعد وہاں دونوں چیزیں خطے میں سب سے سستی ہیں۔
افغان کرنسی جس کی قیمت مارکیٹ طے کرتی ہے پاکستانی روپے سے دُگنی سے بھی زیادہ حیثیت رکھتی ہے۔ گذشتہ سو سال سے دریائے ایموں پر ویسے ہی تاجک، اُزبک پشتون لڑائی میں اُلجھا کر بند نہیں باندھنے دیا گیا تھا جیسے ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ لیکن اب ایموں دریا پر بند باندھ کر نہر نکالی جا رہی ہے جس سے افغانستان گندم میں خود کفیل ہو جائے گا۔ دُنیا بھر کی ناکہ بندی اور مقاطعہ کے باوجود اماراتِ اسلامی افغانستان کی کامیاب حکومت کا ایک سال پوری دُنیا کو خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ عین ممکن ہے کامیاب شرعی نظام کی خوشبو پوری مسلم دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، نہ لے لے۔
یہی وجہ ہے ایک بار پھر اس خطے میں عالمی غنڈہ گردی کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوری‘‘ میں تمام مشیر اسے کیمونزم، جمہوریت اور دیگر نظاموں کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں لیکن ابلیس اپنے آخری خطاب میں صرف ایک خطرے سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے: عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
تبصرہ لکھیے