پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا پھر اس کے بعد خود کوتہہ اب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا آپ بھی جانتے ہیں کہ انسان کے اپنے اندر ہی اس کی خرابی کی صورت پنہاں ہوتی ہے۔
یہ میرا نہیں بلکہ غالب کاخیال ہے بس یہی صورت ہمیں خراب کرتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی۔آپ دیکھتے نہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے کس طرح برسر پیکار ہیں اور وہ غور بھی نہیں کرتے کہ آخر وہ کر کیا رہے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے لڑ رہے ہیں جو اصل میں سارے ایک ہیں وہی جو مورلیکول more equal ہیں۔ بہتر نہیں کہ ہم کوئی اچھی سی کتاب پڑھیں‘ ادب آداب کی دنیا میں اتر جائیں۔شعر یاد آ گیا: تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب تہذیب اس کی دیکھنا آداب دیکھنا آپ ان کو سنیں تو سہی کوئی کسی کو بندر کہہ رہا ہے اور کوئی کسی کو چھچھوندر۔ بتائیے کیا یہ انسانوں والی باتیں ہیں۔
آپ فراز کو سنیں اور نہال ہو جائیں سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں۔ سنا ہے دن میں اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں فراز ہی کیا منیر نیازی کو سنیں اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا،عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنے اندر ایک بانکپن پیدا کریں وہی جو ادا جعفری کہتی ہیں رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے ایک رکھ رکھائو آپ میں ہونا چاہیے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کوئی جس قدر بدتہذیب اور منہ پھٹ ہے اتنی ہی اس کی عزت پارٹی میں ہے۔عزت و توقیر پانے والا نہیں سمجھ پاتا کہ پارٹی کے رہنما نے اسے کس مقصد کے لئے رکھا ہوا ہے۔
اسے دشمنوں پر چھوڑا جاتا ہے سچی بات ہے مجھے تو چند لوگ ہی نظر آتے ہیں جو کم از کم تھوڑا سا خیال کر لیتے ہیں نام لکھنے کی ضرورت نہیں پھر بھی میں بلاول اور احسن اقبال کے نام ضرور لکھوں گا حسن تو کسی بھی جگہ نظر آ جاتا ہے جیسے ہر جگہ شاعری بھی ظہور کرتی ہے مثلاً مجھے ہمیشہ کرکٹر لارا نے بہت متاثر کیا کہ اس کی بیٹنگ شاعری تھی۔ اس کی کور ڈرا تو جیسے ایک رواں شعر۔غالب کا ایک شعر دیکھیے: پوچھا جو میں نے یار سے اڑتے ہیں ہوش کس طرح دیکھا کہ میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں سوچنا چاہیے کہ آپ اپنے آپ کو کس ماحول سے وابستہ کر رہے ہیں فطرت تو آپ سے ہم آہنگ ہونے کے لئے منتظر ہے اپنے آپ کو دریافت کریں۔
ہوا کے ساتھ مت لڑیں۔اس طرح اپنا آپ محسوس نہیں ہوتا ۔اور صلاحیتیں بھی اجاگر نہیں ہوتیں ابھی ایک شعر یاور عظیم کا دیکھا تو سوچا لکھ دوں: میں روشنی کے قبیلے کا فرد ہوں یاور یہ چاند اور ستارے ہیں ہم نسب میرے یقین کیجیے کہ کالم جس رخ پر چل پڑا ہے تو دل نہیں چاہتا کہ اسے سیاست کی طرف لے جائوں کہ سیاست کو تو خود کچھ علم نہیں کہ وہ کدھر جا رہی ہے۔ بہرحال اچھا لگا کہ آصف محمود جی نے ایک ادبی انداز میں نواز شریف کو بھی آئینہ دیکھا دیا کہ انہیں بھی سلام پیش کر دیا کہ دو روز قبل نواز شریف نے تین ججز کو حمزہ کے معاملے میں طنزاً سلام بھیجا تھا۔وہی جو مومن نے کہا تھا کہ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
ہمیں ذرا ذرا نہیں بلکہ پوری طرح یاد ہے کہ جب سپریم کورٹ پر حملہ کروایا گیا تھا اس میں ہمارے پیارے دوست طارق عزیز صاحب بھی تھے بلکہ گیپ پر وہی چڑھتے تھے ہم ان کے ساتھ دل لگی کیا کرتے تھے وہ مسکرانے لگتے اصل میں نواز شریف میں بادشاہت تھی ایسے ہی جیسے پرویز مشرف تھا ان دنوں کا اپنا شعر بھی یاد آ گیا جو وکلا تحریک میں میں نے کہا تھا: اے خدا لوگ تجھے دیکھتے ہیں اور تونے ایک فرعون کی مہلت کو بڑھا رکھا ہے باقیات تو ضیاء الحق کی بھی چل رہی ہیں کوشش تو سب نے کی اپنی حریت پسندی دکھا کر داغ غلامی مٹایا جائے مگر طاقت کے سامنے بے بسی نظر آئی کاش یہ سیاستدان مثبت رویے رکھتے تو اس میں برکت اترتی۔مگر ہوا کیا نواز شریف بھی شیخ رشید کو انہیں خاص مقصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور بے نظیر ٹارگٹ ہوتی تھیں منفی اپروچ بھی زرداری پر مقدمات اور زرداری نے بڑی دیر بعد حساب برابر کیا پھر وعدہ خلافیوں کا تذکرہ کیا تو کالم ختم ہو جائے گا یہ غلط نہیں کہ چودھری برادران ڈسے ہوئے ہیں مگر اب تو وہ ایک دوسرے کو ڈس رہے ہیں۔
اسی منفی سیاست کو عروج ہردور میں ملا زبان کچھ اور آلودہ ہوتی گئی جارحانہ رویے لعن طعن اور دھمکیاں۔آپ کچھ بھی کہہ لیں بجائے اپنی کارکردگی دکھانے یا بتانے کے جانے والوں کے نقائص ۔ پوری سیاست پکڑ دھکر اور بڑھکیں نتیجہ صفر ۔مگر موازنہ نہ کرنے والے ہمیشہ وہی بڑی اور چھوٹی بیماری کے چکر میں فیصلہ کرتے ہیں۔ جس طرح زرداری کے مقابلے میں لوگوں نے نواز شریف بہتر جانا شاید ویسے ہی انہوں نے عمران خاں کو نواز شریف سے بہتر جانا کسی نے کسی کو کیا جانا یہ بھی الگ بات ہے لوگ پوچھتے تو ہیں ناں کہ آخر سٹیٹ بنک تک بھی گروی رکھ دیا گیا معیشت کی طرح باقی معاملات بھی بگڑتے جا رہے ہیں ۔
اب پنجاب وفاق کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہو گا ایسے ہی جیسے کبھی پنجاب بے نظیر کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا تھا وہی تاریخ دہرائی جا ئیگی آپ اسے مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں ایک شعر کے ساتھ اجازت: شکریہ تیرا کہ تونے ہمیں زندہ رکھا ہم کو محرومی کا احساس دلانے والے
تبصرہ لکھیے