لیجئے جناب بحران کی ایک اور منزل پر قافلے نے پڑائو ڈالا۔ سہ رکنی بنچ کے فیصلے نے عمران خان کی ایک مشکل حل کر دی۔ پنجاب میں براہ راست ان کی نہ سہی‘ بالواسطہ پرویزالٰہی دراصل الٰہی کی حکومت بن گئی۔ پرویزالٰہی پی ٹی آئی میں شامل نہ سہی‘ پی ٹی آئی کی بارات کا دولہا پھر بھی وہی ہیں۔
اب قافلہ بحران کی اگلی منزل کی طرف بڑھے گا۔ پرویزالٰہی ان لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں جن کی سیاست عوام نہیں‘ دھڑوں کے گرد گھومتی اور ڈیروں میں جھومتی ہے۔ ان کا ڈیرہ پھر سے آباد ہو گیا ہے‘ لیکن آبادی اور شادمانی اس ڈیرے کی تبھی ہوگی جب مسلم لیگ کا ڈیرہ پوری طرح اجڑ جائے۔کیا اجڑ پائے گا؟ کیوں نہیں‘ اگر معجزہ ہو جائے تو۔ اور پاکستان تو سرزمین ہی معجزات کی ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی اس رولنگ کا کالعدم ہونا کسی معجزے سے کم ہے؟ جس کے تحت مسلم لیگ کے حمزہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔‘البتہ ماضی میں یہ معجزہ نہیں ہو پایا تھا۔ تب کی زمین معجزات کیلئے زمین شور تھی۔
پرویز الٰہی پانچ سال پنجاب کے مرد آہن بنے رہے‘ ان سے بھی بڑے مرد آہن جن کے ہاتھوں میں لوہا پگھلا کر مائع اور مائع سے گیس بنانے کی صلاحیت تھی‘ یعنی جنرل مشرف پاکستان کے مالک و مختار تھے ۔ یہ دو دو مرد آہن پانچ سال کی لگاتار محنت‘ صنعت و حرفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا لوہا نہ پگھلا پائے اور جنرل کیانی آرمی چیف بنے تو فیصلہ کیا کہ الیکشن آزاد نہ ہونگے اور الیکشن ہوئے تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ کا لوہا جوں کا توں ہے۔ تپ کر سرخ تو ہوا ہے لیکن ذرا بھی پگھلا نہیں ہے‘ لیکن دونوں مردان آہن کی قاف لیگ ایسی پگھلی کہ تودے سے ڈلی ہو گئی۔ اتنی چھوٹی کہ بچے کی ہتھیلی میں آجائے۔
پرویزالٰہی نے ایک ریکارڈ تو یہ بنایا کہ ’’بحکم‘‘ وزیراعلیٰ بنے۔ یہ حکم آئین کی ایک شق کی تشریح کے بعد تصحیح شدہ تشریح کے نتیجے میں جاری ہوا۔ دوسرا ریکارڈ انہوں نے اسی روز یہ بنایا کہ حلف صوبائی نہیں‘ وفاقی دارالحکومت میں اٹھایا۔ حلف اٹھانے کیلئے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچے۔ یہ طیارہ ایک بہت بڑے ٹائیکون نے انہیں عطا کیا تھا جس کی کمائی میں قدرت نے بے پایاں برکت رکھی ہے۔ کیا پتہ ایسی ہی ’’عطائوں‘‘ کے صلے میں یہ مقام ملا ہو۔
بہرحال پرویز الٰہی صاحب کے سامنے اب بہت بڑے بڑے ٹاسک ہیں۔ ایک تو یہی مسلم لیگ(ن) جو ماضی کی وزارت اعلیٰ میں بھی ایک نا مطلوب رکاوٹ بن کر ’’دوڑتی‘‘ رہی۔ امید ہے وہ اپنی بے مثال قائدانہ صلاحیتوں کی مدد سے اس نامطلوب رکاوٹ کے استیصال کیلئے اپنی پوری توانائی صرف کر دیں گے۔ دوسرا بڑا ٹاسک اس متوقع لانگ مارچ کی کامیابی ہوگا جو اسلام آباد میں محصور مبینہ حکومت سے نجات کیلئے کیا جانے والا ہے۔ ایک سرا لاہور سے چلے گا اور دوسرا پشاور سے۔ گویا دو طرف سے یلغار ہوگی جو نمنیم کو پیس کر رکھ دے گی۔ خبر ہے کہ مریم نواز کو مسلم لیگ(ن) میں مرکزی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں کس حد تک درست ہے‘ لیکن اگر درست ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ بے قیادت پارٹی کو قیادت مل جائے گی۔
’’انگلینڈ‘‘ سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
مسلم لیگ کی قیادت نوازشریف ہیں جو لندن میں بیٹھے ہیں۔
موجودہ اور مبینہ حکومت نے اقتدار کچھ پکے وعدوں اور یقین دہانیوں کے بعد سنبھالا تھا۔ ان میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ نوازشریف کو پاکستان آنے کی اجازت مل جائے گی۔ اجازت کا مفہوم آپ جانتے ہی ہونگے‘ لیکن جب حکمران اتحاد تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد حکومت سنبھال چکا تو پتہ چلا کہ مذکورہ وعدے سمیت تمام وعدے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے لاپتہ افراد کے کمشن سے رجوع کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ وہ بھی لاپتہ ہے۔
مریم نے قیادت سنبھالی تو قیادت کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ لیکن وہ وہ گرفتار کر لی گئیں تو؟ قیادت سے محروم مسلم لیگ پھر اپنی موجودہ پوزیشن پر لوٹ جائے گی۔ مریم نے دور روز پہلے بتایا تھا کہ فل کورٹ کی استدعا کے بعد انہیں فون آیا جس میں اشارے کنائے سے بتایا گیا کہ ان کی ضمانت منسوخ بھی ہو سکتی ہے۔ ضمانت منسوخ کرائے جانے کی نوبت آنا ضروری نہیں‘ پنجاب کی ولولہ انگیز قیادت انہیں کبھی بھی کردہ ناکردہ کے تحت پکڑ کر حوالۂ زنداں کر سکتی ہے۔ ان کی تو پھر ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ بھلے ہی وہ بہت بڑی لیڈر ہیں‘ لیکن شیریں مزاری جیسی بااثر تو نہیں ہیں۔
مریم اتنی ہی ’’نامطلوب‘‘ ہیں جتنے کہ نوازشزیف۔ ان کے بعد بے قیادت مسلم لیگ کیا کرے گی۔ نوازشریف کو دعائیں دے گی جنہوں نے پارٹی میں صف دوئم کی قیادت ابھرنے ہی نہیں دی۔ ’’اپوزیشن اتحاد‘‘ نے دھمکی دی ہے کہ وہ عدلیہ بحالی تحریک نئے سرے سے شروع کرے گی۔ یعنی یہ کہ عدلیہ بحالی تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع کرے گی۔ پہلے مرحلے نے جو ن نتیجے دیئے‘ وہ شاید اپوزیشن اتحاد کو یاد نہیں رہے۔ لگتا ہے‘ مومن دوسری با رخود کو ڈسوائے جانے کی تیار کر رہا ہے۔
عمران خان کو فتح مل گئی جس کا ان کے حامیوں نے جشن بھی منایا۔ خاص طور سے لبرٹی والا جشن بہت خوب تھا۔ 2014ء کے دھرنے کی طرب ناک او تابدار یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس فتح کے بعد سے ملک کے سری لنکا بننے کا خطرہ بڑی حد تک ٹل گیا ہے۔ پوری طرح بھی ٹل جائے گا جب اسلام آباد کے ایوان اقتدار میں محصور مبینہ حکومت سے بھی نجات مل جائے گی۔ لیکن اس فتح کی قیمت کا اندازہ ابھی خان صاحب نے نہیں کیا۔ ان کے ہاتھ میں موجود گراں قیمت منافع بخش کارڈ اب ناقابل استعمال ہوگیا ہے۔ وہی امریکی سازش اور میر جعفر صادق والا کارڈ۔ دوسری طرف محصور اپوزیشن کے ہاتھ ایک قیمتی کارڈ آ گیا ہے جو خان صاحب کے اب مرحوم ہو چکے کارڈ سے بھی زیادہ نفع بخش ہو سکتا ہے۔ اس کارڈ پر یہ الفاظ لکھے ہیں:
’’’۔ہمیں گھیر کر مارا گیا‘‘
اور سنا ہے کہ کارڈ کی تقسیم شروع ہے۔ خریداروں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔
تبصرہ لکھیے