ملک کی موجودہ صورتحال پر دل خون کے آنسو روتا ہے، ملک میں سیاسی بد امنی اور مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے، غریبوں کو جان کے لالے پڑے ہیں جبکہ سیاستدان اقتدار کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں.
حکومت کو احساس نہیں کہ ڈالر کہاں سے کہاں پہنچ گیاجس سے نہ صرف یہ کہ سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی بلکہ پاکستان پر غیر ملکی واجب الادا قرضوںکا مزید بوجھ بڑھ گیا، ابتر معاشی صورتحال سے بیروزگاری میں اضافہ ہوچکا ہے، بجلی پہلے ہی بہت مہنگی ہے جبکہ اب اس میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں ہم بجلی مہنگی کرنے کے پابند ہیں، ان کو عوام سے کئے گئے وعدوں کی پابندی کا احساس نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی افراتفری روپے کی قدر میں گراوٹ کا باعث ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سیاسی افراتفری کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے؟، جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔
ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ کو شکست ہو گئی ، مریم نواز و دیگر نے شکست تسلیم کر لی تو بہتر یہی تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا ،حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر اراکین اسمبلی خریدنے کے الزامات لگا رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سب کو پتہ ہے ہماری پارٹی کے پاس نمبر پورے ہیں، اگر چوری کے پیسے سے عوامی مینڈیٹ خریدا گیا تو پھر جو ہوگا میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔یہ دھمکی آمیز لب و لہجہ ہے جبکہ چوری پیسے کی ہو یا ووٹ کی ، ہر چیز کا قانون موجود ہے اس کے مطابق سزا کا مطالبہ کیا جانا چاہئے۔
سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ بھٹو کا کارکن ہوں خرید و فروخت کی سیاست نہیں کرتا، یہ بھی دیکھئے کہ آصف زرداری اپنے اسی بیان میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا امیدوار حسن مرتضیٰ ہوتا تو پیسے ضرور لگاتا، ایک ہی سانس میں ایک دوسرے سے الٹ دو باتیں یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے، نجانے یہ سیاستدان دوسروں کو بیوقوف بناتے ہیں یا خود بیوقوف ہیں۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات دونوں طرف سے لگائے جا رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی آ رہی ہے ۔ مجھے بہت دکھ اور صدمہ ہوتا ہے کہ سیاستدان کرسی اور اقتدار کیلئے کروڑوں ، اربوںروپے خرچ کر ڈالتے ہیں مگر کسی مصیبت زدہ کے کام نہیں آتے۔
ماچھکہ ضلع رحیم یار خان میں دریائے سندھ میں بارات کی کشتی ڈوبنے سے دولہا سمیت پچاس باراتی جاں بحق ہو گئے ، عمران خان ، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان ، مریم نوازو دیگر تو اپنی جگہ رہے ،دوسرے درجے کی قیادت بھی وہاں نہیں پہنچی، اس سانحہ پر وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو وہاں ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ،دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے ، لاہور میں میٹرو روٹ کیلئے کھدائی ہو رہی تھی ، لاہور کا ایک شخص غلطی سے گڑھے میں گر کر فوت ہو گیا ، اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پچاس لاکھ روپے کا چیک لیکر وہاں پہنچے اور تعزیت کے ساتھ اعلان کیا کہ مرحوم کے بچوں کی تعلیم مفت ہو گی اور اس گھر کے بیروزگار افراد کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ہمدردی کے حقدار کشتی حادثہ کے جاں بحق ہونے والے باراتی نہیں ہیں؟ ۔ بڑی بات یہ ہے کہ وسیب کے عوامی نمائندے بھی خاموش ہیں۔ میں نے سانحہ ماچھکہ پر وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اورگورنر کو درخواستیں بھیجی ہیں ، میں نے لکھا کہ ’’دریائے سندھ میں بارات کی کشتی ڈوبنے سے 19 افراد کی میتیں مل سکی ہیں جبکہ 27 افراد کی نعشیں ابھی تک دریا سے نہیں مل سکیں،پورے وسیب میں صف ماتم بچھا ہوا ہے ہر شخص سوگوار ہے، میری درخواست ہے کہ فوت ہو جانے والے ہر شخص کیلئے 20، 20 لاکھ روپے کی امداد دی جائے اور ممکن ہو تو جائے حادثہ پر آپ تشریف لے جائیں، یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے حادثہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے مگر لواحقین کی امداد اور اشک شوئی نہ ہوئی تو یہ بات سانحہ پر سانحہ شمار ہو گی۔
اچھے کام کا ثواب بھی ہوتا ہے اور ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے، امید ہے کہ آپ میری درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے ‘‘۔ میں نے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود اور اپنے شہر کے ایم این اے شیخ فیاض الدین سمیت دیگر اراکین اسمبلی کو بھی لکھا کہ وہ حکومت کو سانحہ ماچھکہ کی طرف متوجہ کریں، سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود نے مثبت جواب دیا باقی ہر طرف سے خاموشی ہے۔ سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص کی ایک نظم مشہور زمانہ ہے اس میں انہوں نے وسیب کے جاگیرداروں کا ذکر کیا ہے اور وسیب کو محروم رکھنے کے حوالے سے وسیب کے جاگیرداروں کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے لغاری ، مزاری ، گیلانی قریشی، عباسی ، کھر ، کھوسے ، دریشک، گردیزی ، مخدوم، کھچی و دیگر جاگیرداروں کے کردار کا تفصیل سے ذکر کیا ہے،یہ نظم اتنی مشہور ہوئی کہ وسیب میں زبان زدعام ہو چکی ہے ۔
جہانگیر مخلص نے وسیب کے نوجوانوں کو جاگیرداروں کے خلاف جرأت کے ساتھ جینے کا درس دیا ہے۔ نظم کے شعر آپ بھی پڑھیں۔ توں ڈکھاں دے سارے سفر یاد رکھیں کیویں تھئی اے تیڈی بسر یاد رکھیں اے لغاری ، مزاری ،گیلانی ، عباسی تیڈی راہ دے ہن پتھر یاد رکھیں جیرھے تیڈی دھرتی دے بن گن وپاری او کھوسے دریشک تے کھر یاد رکھیں اے گردیزی ، مخدوم ، کھچی ، قریشی انہاں وی نی چھوڑی کسر یاد رکھیں جیرھے ساڈے نسلاں دا ساہ پیندے رہ گن انہاں سنگ چوڑ نانگیں دے گھر یاد رکھیں جے بھیڈاں دے وانگوں توں دھرتی تے جیسیں تاں بھیڈاں کوں پوندن نہر یاد رکھیں
تبصرہ لکھیے