سیاسی صورتحال اب محض صورتحال نہیں رہی‘ بحران بن گئی ہے۔ ایسا بحران جو بڑھتا ہی رہے گا اور ہماری ’’مستقل ماحولیات‘‘ کا اٹوٹ انگ بن جائے گا۔ ایک دن ہم اس کے عادی ہو جائیں گے اور ہمارا لا شعور مان لے گا کہ زندگی اسی کا نام ہے‘ کم از کم ہماری نئی نسل کی حد تک تو یہ کہنا ہی پڑے گا۔ ایسا افغانستان میں ہو چکا ہے۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے‘ افغان اس کے عادی ہو گئے ہیں‘ ان کا لا شعور مان چکا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔
چار عشروں سے اوپر ہو گئے جب پہلی بار افغان شہریوں پر بم گرنے لگے‘ بندوق بردار بستیوں بازاروں میں گھس کر لوگوں کو شکار بنانے لگے‘ راہ چلتے لوگ بارودی سرنگوں کی نذر ہونے لگے‘ باراتیں جنازوں میں اور جنازوں کے جلوس خود جنازے بننے لگے۔ افغان قوم خوف اور دہشت میں ڈوب گئی‘ یاخدا‘ یہ عذاب کیوں ٹوٹ پڑا۔ دلوں سے سکون رخصت ہوا‘ وحشت دلوں میں گھر کر گئی۔ اور آج چار عشروں بعد افغان قوم جان چکی ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔ تب کے لوگ جو دھماکوں سے بچ گئے تھے‘ بوڑھے ہو کے مر گئے۔
آج جو ہیں‘ زیادہ تر بچوں پر مشتمل ہیں جنہوں نے پہلی سانس ہی اس دنیا میں دھماکوں کی آوازوں کے دوران لی‘ انہوں نے گرتے ملبوں کے درمیان آنکھ کھولی‘ کچھ بڑے ہو کر گلیوں میں چلنے لگے تو لاشوں کے درمیان سے گزرنے کا ہنر سیکھا‘ یہ نسل جب کہیں پڑھتی او رسنتی ہے کہ باقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا تو حیران ہوتی ہے۔ ہم بھی حیران ہوا کریں گے۔ جو کچھ ہو رہا ہے‘ بیرونی ہاتھ نہیں کرا رہا‘ جو کچھ ہے‘ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور ہمارے اپنے ہاتھوں سے مراد عوام ہرگز نہیں کہ ان کا حال تو ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاراںمائی کی والا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاتھوں سے مراد ہمارے ناخداؤں کے ہاتھ ہیں۔ جن ناخداؤں نے کشتی پار لگانی تھی‘ انہوں نے ہی ڈبویا ہے کہیںمزا آتا ہے اور وہ مزے لے رہے ہیں۔
عوام مزہ لے نہیں رہے‘ مزہ چکھ رہے ہیں
کل ایک ٹی وی پر خان صاحب کا خطاب سنا۔ زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا‘ دیکھو کیا حالت کر دی‘ ڈالر اڑھائی سو روپے کا ہو گیا۔ اڑھائی سو یعنی دو سو پچاس روپے کا۔ خان صاحب ابھی ڈالر دو سو انتیس کا ہوا ہے‘ اڑھائی سو کا ہوا نہیں‘ البتہ چند دنوں تک ہو جائے گا۔ آپ کی دعا سے ۔۔ جی بالکل‘ آپ ہی کی دعا سے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فرمایا ہے کہ معیشت اب بھی اچھی ہے‘ آپ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ’’اب بھی‘‘ کے الفاظ پر غور فرمائیے۔ اور پھر جو چاہے ارشاد فرمایئے۔ اور اس اب بھی کی تشریح بھی کل چیئرمین نیپرا نے کر دی۔ اسلام آباد میں بجلی مہنگی کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران فرمایا کہ بجلی 40 روپے فی یونٹ ہو سکتی ہے۔
یہاں ’’ہو سکتی ہے‘‘ کا ترجمہ اصل میں ہو جائے گی یا کر دیں گے کہا جائے۔ خان صاحب بجلی کو 8 روپے سے 32 روپے یونٹ کر کے گئے تھے‘ آپ مزید 8 کا اضافہ کر کے 40 کر دیں۔ کون روکے گا۔ کسی نے خان صاحب کو روکا نہ آپ کو روکنے والا کوئی ہے۔ البتہ آپ 40 پر نہیں رکیں گے‘ اس سے بھی آگے جائیں گے اور قوم کو دو آپشن دیں گے کہ جو چاہے اختیار کر لو پہلا آپشن‘ میٹر کٹوا دو‘ دوسرا آپشن‘ گلے کاٹو چاہئے اپنے‘ چاہے دوسروں کے)
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرول کے نرخ سو روپے لیٹر کم کئے جائیں۔مطالبہ درست ہے‘ مطالبہ غلط ہے‘ یہ مطالبہ حکومت سے نہیں‘ اقتدار اعلیٰ سے کیا جائے‘ اقتدار اعلیٰ کو انگریزی میں آئی ایم ایف کہتے ہیں۔ لالہ موسیٰ میں گھریلو جھگڑے پر ایک شخص عبدالغفور نے اپنی بیوی کی ٹنڈ کر دی اور فرار ہو گیا۔یعنی سر کے بال کاٹ دیئے‘ گنجا کر دیا‘ خبر نگار نے مزاح کا پہلو مسالہ کے طور پر ڈالنے کیلئے ٹنڈ کر دی کے لفظ استعمال کئے۔ یقیناً کئی لوگ اس پر ہنسیں گے‘ خوش بھی ہوں گے‘ شاید۔ خبر‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی مذمت کریں گی۔ اسے ناجائز تشدد سے تعبیر کریں گی لیکن ہمارا خیال ہے کہ ملزم عبدالغفور کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے بہت سے دوسروں کی طرح ’’مردانگی کے تقاضے‘‘ پوری طرح پورے نہیں کئے۔ محض سر کے بال کاٹے‘ سر نہیں کاٹا۔
چند دن پہلے پختونخواہ کے کسی علاقے سے خبر آئی تھی کہ کھانا بنانے میں دیر پر شوہر نے بیوی کو ڈنڈے مار مار کر قتل کردیا۔ ان کا چار سالہ بچہ ماں کے جسم سے خون بہتا دیکھ کر رونے لگا تو باپ نے کس کر ڈنڈا سر پر ایسے مارا کہ بچہ وہیں پر مر گیا۔ چائے اچھی نہ ہو، کھانا دیر سے بنے تب بھی ’’غیرت‘‘ جاگ اٹھتی ہے، مردانگی بیدار ہو جاتی ہے۔ ستم ملاحظہ فرمائے ۔ہر طرف ایسی خبریں آتی ہیں لیکن اب کوئی الطاف حسین حالی جنم نہیں لیتا۔
خیر ذائقہ بدلنے کیلئے ایک بہت پرانی یاد دلا دوں۔ دوعشرے سے بھی زیادہ پرانی خبر ہے۔ پشاور کے قریب ایک افغان مہاجر نے چائے نہ بنانے پر بیوی پر راکٹ لانچر چلا دیا (راکٹ اصل میں لانچر سے چلایا جاتاہے لیکن اب یہی محاورہ چل رہا ہے کہ راکٹ لانچر چلا دیا)۔ نشانہ خطا ہوا۔ بیوی بچ گئی لیکن جھونپڑے کی دیوار گر گئی۔ یہ افغان مہاجر بھی ’’حوصلہ افزائی‘‘ کا مستحق تھا۔ اس لئے کہ ایک راکٹ چلانے کے بعد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ دوسرا نہیں داغ دیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جھونپڑا گرنے کے صدمے نے ٹھنڈا کردیا ہو۔
تبصرہ لکھیے