ہوم << ملک کا بڑا سیاسی خاندان تقسیم ہو گیا - محمد اکرم چوہدری

ملک کا بڑا سیاسی خاندان تقسیم ہو گیا - محمد اکرم چوہدری

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یا سیاستدانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ چیزیں ایسی باتیں ہم برسوں سے سنتے آرہے ہیں اور پاکستان میں مختلف وقتوں میں اقتدار کی تبدیلی اور عروج و زوال کے ایسے واقعات ہیں کہ آپ سوچنے بیٹھے ہیں تو دل دہل جاتا ہے۔

گذشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے چودھری شجاعت حسین کا خط پڑھا اور سامنے بیٹھے پرویز الہٰی سن رہے تھے کہ چودھری شجاعت حسین ان کے سیاسی فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں اور پرویز الہٰی نے چودھری شجاعت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے الگ سیاسی راستہ اختیار کیا۔ یہ منظر حیران کن نہیں تکلیف دہ ہے یقیناً چودھری شجاعت حسین کے فیصلے سے کسی کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہے اور کسی کو سیاسی طور پر نقصان ہوا ہے لیکن میرے خیال میں یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک تکلیف دہ دن تھا جب ملک کا ایک بڑا سیاسی خاندان ٹوٹ گیا.

ملک کا ایک بڑا اور معتبر سیاسی خاندان تقسیم ہو گیا اور اب یقینی طور پر وہ بات نہیں رہے گی جو اس سے پہلے چودھری برادران کے درمیان ہوا کرتی تھی یا جس طرح ان کی محبت اور جس طرح ان کا اکٹھے رہنا مشہور تھا وہ بہت مشکل ہوگا۔ اس فیصلے کو سیاسی فیصلے سے ہٹ کر ایک اخلاقی فیصلے کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے اور جب آپ اس کو ایک اخلاقی فیصلے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو آپ تکلیف سے گذرے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ اسلام جوڑنے کا درس دیتا ہے، اسلام تعلق بنائے رکھنے کا درس دیتا ہے اور اگر آج ہم مجموعی طور پر اپنے معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے تقسیم بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے

جوڑنے والے کم ہیں توڑنے والے زیادہ ہیں تقسیم کرنے والے زیادہ ہیں متحد رکھنے والے کم ہیں محبت کو عام کرنے والے، پیار کو عام کرنے والے، اچھے اخلاق سے دل جیتنے والے کم ہیں، نفرت پھیلانے والے توڑنے والے انتشار پھیلانے والے حاوی نظر آتے ہیں۔ میں کبھی یہ نہیں چاہتا نہ چاہوں گا اور چودھری شجاعت حسین اور پرویز الہی الگ ہوں، نہیں چاہتا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف الگ ہوں میں کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو میں کوئی سیاسی اختلاف آئے، کبھی یہ نہیں چاہتا کہ خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق سیاسی اختلافات کی وجہ سے الگ راستے اپنائیں۔ میں کبھی یہ نہیں چاہتا کہ شاہ محمود قریشی اور زین قریشی سیاسی اختلافات کو بنیاد بنا کر الگ الگ ہوجائیں۔

پاکستان کی سیاست اس کی متحمل نہیں ہوسکتی پاکستان کی سیاست کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاست کو اتفاق کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاست کو محبت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاست کو تحمل مزاجی اور برداشت کی ضرورت ہے۔ جب ہر طرف نفرت کا بازار گرم ہے اس میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کا الگ الگ سیاسی موقف اختیار کرنا یقینی طور پر پاکستان کی سیاست میں انتشار کا باعث بن سکتا ہے اور وہ خاندان جو محبت اور اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا وہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے تقسیم ہو گیا ہے۔ مونس الٰہی اور سالک حسین کو الزام دیں، یا کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرائیں دہائیوں کی رفاقت، تعلق اور محبت تو پہلے جیسی نہ رہی۔ دیواریں تقسیم ہو گئیں، دستر خوان تقسیم ہو گئے، راستے جدا ہو گئے۔

ایسی سیاست کا کیا کرنا ہے۔ کیا چودھری پرویز الٰہی کا فرض نہیں تھا کہ وہ چودھری شجاعت حسین کو مناتے اور اگر وہ نہیں مان رہے تھے تو دستبردار ہو جاتے انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کو دہائیوں کی دوستی، تعلق اور رشتہ داری پر ترجیح دے دی۔ پہلے انہوں نے وعدہ کیا پھر وعدہ توڑا پھر چودھری شجاعت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سارے عمل میں اصل نقصان چودھری خاندان کا ہوا ہے۔ زمانہ جنہیں چودھری برادران لکھا کرتا تھا شاید اب ایسا نہ ہو۔ ویسے میری دلی خواہش ہے کہ یہ خاندان یہیں سے جڑ جائے جو کہ بظاہر ممکن نہیں لگتا لیکن اس کی دعا تو کی جا سکتی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی صحت بھی بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اس بیماری میں انہیں ایک اور ذہنی صدمے اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اللہ ہمیں ایسی تکلیف سے محفوظ فرمائے۔ چودھری شجاعت حسین کو صحت و تندرستی عطاء فرمائے۔ مونس الہی اور سالک حسین کو اپنے بزرگوں کی طرح اکٹھے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

پرویز الہٰی نے وعدہ خلافی کی، چودھری شجاعت حسین نے وعدہ نبھا دیا۔ انہوں نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو بچا کر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری پر ایسا احسان کیا ہے کہ انہیں باقی سیاسی زندگی چودھری شجاعت حسین کے اس سیاسی احسان کے بوجھ تلے گذارنا ہو گی۔ شجاعت حسین نے وعدہ نبھایا اور اس کا انہیں خاندانی طور پر بہت نقصان ہوا ہے لیکن انہوں نے اپنے اس فیصلے سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وعدہ نبھانے کے لیے کس حد تک جایا جا سکتا ہے۔

اگر وعدہ نبھانے کا یہی جوش و جذبہ سیاست دان اپنے ووٹرز کے ساتھ رکھیں، حلف کے ساتھ رکھیں، ملکی ترقی کے لیے کام کرتے ہوئے اس جذبے کو بیدار رکھیں تو یقینی طور پر ہم حقیقی آزادی اور تبدیلی کی طرف چل سکتے ہیں۔ ابھی تو ہم شیطانی سوچ کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، وعدہ کرتے ہی توڑنے کے لیے ہیں، تعلق بناتے ہی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ یاد رکھیں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے تعلق قائم رکھنے اور قربانی دینے والوں کو اللہ سنبھالتا ہے۔ اللہ ان کے لئے راستے بناتا ہے جو اللہ کے لیے قربانی دیتے ہیں۔ اللہ ہمیں ایسے امتحان سے محفوظ فرمائے۔ آمین