بڑے دنوں سے کچھ "سیاسی بونوں" کے بیانات سن رہا ہوں ایسے سیاسی بونے جن کے سر پر "دست شفقت" نہ ہو تو شاید کونسلر کا الیکشن بھی نہ جیت سکیں۔ ایسے ایسے لوگوں کو زبان لگی ہوئی ہے کہ اگر انہیں کسی سیاسی جماعت کا سربراہ اپنی خدمت کے عہدے سے فارغ کر دے تو کوئی انہیں ٹی وی پر بھی نہ بلائے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگوں کو "رہنما" لکھا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہے جو ہر وقت رہنمائی کے لیے کہیں اور دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سارے مل جل کر افواجِ پاکستان کے پیچھے پڑے ہیں۔ پہلے فواد چودھری بولے وہ چند دنوں سے مسلسل کسی کو مشورے دے رہے ہیں، تبدیلی کا اعلان کر رہے ہیں، میڈیا کے انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں انہیں کسی کی مداخلت پر اعتراض ہے۔ فواد چودھری کو اسٹیبلشمنٹ کے کردار یا حدود پر بات کرنے سے پہلے کچھ دیر کے لیے ذرا سوچ لینا چاہیے۔ وہ یہاں تک کیسے پہنچے ہیں، کب کہاں سے مدد ملتی رہی ہے۔ کیسے کیسے لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی اگر آج کسی کو مشورے دے رہے ہیں تو اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اگر انہیں یا ان کے کسی سیاسی ساتھی کو آج انقلاب کی خواہش ہے تو یہ انقلاب دو ہزار اٹھارہ یا اس سے کچھ پہلے کہاں سویا ہوا تھا۔ آج اگر انہیں یہ لگتا ہے کہ فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں تو صرف آج کے فیصلوں پر اعتراض کیوں ہے۔
قوم کو پورا سچ کیوں نہیں بتاتے، آدھا سچ پورے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ اگر فواد چودھری چاہتے ہیں کہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں تو پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ شروع کہاں سے کرنا ہے۔ کون سی پارلیمنٹ، اگر پارلیمنٹ سپریم ہے تو پھر وہ کیوں قومی اسمبلی سے باہر ہیں، کیوں ان کی جماعت جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنتی۔ جو کچھ لگ بھگ پونے چار سال تک اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا رہا ہے کیا وہ سابق وفاقی وزیر سے ڈھکا چھپا ہے۔ اگر وہ دوسروں پر الزام دھر رہے ہیں تو قوم کو یہ بھی بتائیں کہ کیا
خیبر پختونخوا کے مسائل کا ذمہ دار بھی کوئی ادارہ ہے، کیا کے پی کے میں لگ بھگ نو سال سے پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے۔ اس دوران خیبر پختونخوا کے لوگوں کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ کیا نو سال کا عرصہ کم ہے، کیا اس دوران صوبے میں بڑی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی تھی۔ اگر وہاں پی ٹی آئی ناکام ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی ادارہ ہے۔ کیا فواد یہ چاہتے ہیں کہ ادارے صرف وہ فیصلے کریں جن سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ پہنچے۔ زیادہ لکھنا یا کہنا نہیں چاہتا لیکن کسی کو بھی بات کرنے سے پہلے حالات و واقعات اور ماضی پر نظر ضرور دوڑانی چاہیے۔
ایک شہباز گل ہیں۔ کیا انہوں نے کوئی حلقہ جیتا ہوا ہے۔ کیا انہوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی ہے، کیا انہوں نے صحت، تعلیم یا سیاسی میدان میں قوم کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اگر اپسا کیا نہیں ہے تو پھر یہ اتنی بڑھ بڑھ کر باتیں کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ اگر آج یہ استعفوں کا تقاضا کر رہے ہیں یہ تو یہ تقاضا اس وقت کیوں نہیں کیا گیا جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت بن رہی تھی یا پھر اس وقت کیوں نہیں کہا جب ہر روز یہ کہا جاتا تھا کہ ہم ایک پیج پر ہیں ، مثالی تعلقات ہیں، ایسے تعلقات تو کبھی کسی کے نہیں تھے۔ اب اچانک حکومت سے نکلنے کے بعد ہر کسی کو انقلابی بننے کا شوق ہو چلا ہے۔ اس کی کیا ضمانت ہے کہ کبھی یوٹرن نہیں لیں گے۔ باتیں کرنا آسان ہیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں، بات کرنے سے پہلے اپنے ماضی کو دیکھیں پھر آگے بڑھیں۔
ایسے لوگوں کو مداخلت پر عارضی اعتراض ہوتا ہے۔ بہرحال انہیں قوم کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ اعتراض کی اصل وجہ کیا ہے۔ کیا ان کی حکومت میں ڈالر کا اوپر جانا بھی اداروں کی ناکامی تھی، کیا ان کے دورِ حکومت میں پنجاب میں کوئی کام نہ ہونے کی ذمہ داری بھی کسی ادارے پر عائد کرنی ہے۔ کچھ خدا کا خود کریں، لوگوں کی زندگی مشکل بناتے رہے ہیں، لوگ چیختے چلاتے رہے اور آپ کہتے تھے خطے میں سب سے سستا پیٹرول پاکستان میں ہے۔ صحافت سے انہیں چڑ ہے، زبان سے اچھا لفظ ادا نہیں ہوتا۔ کچھ خیال کریں۔ آزادی مانگتے ہیں اور حکومت ملنے پر جو کچھ کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسی ایسی ریکارڈنگ ہے کہ ملکی سلامتی کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایسے باتیں لکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے لیکن ان سیاست دانوں کو ذرا پرواہ نہیں۔
نون لیگ کو بھی ضمنی انتخابات میں ناکامی کے بعد ماضی یاد آ رہا ہے۔ وہ بھی کسی کے ساتھ گلے شکوے کر رہے ہیں۔ کبھی شاہد خاقان عباسی بولتے ہیں تو کبھی جاوید لطیف برستے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق بھی نیب کیس کچھ یاد دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا دہائیوں تک حکومت کرنے کے باوجود بھی انہیں کسی سے گلہ کرنا چاہیے اور کچھ نہیں تو مسلسل دس سال میاں شہباز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اس سے پہلے ان کے بھائی بھی وزیر اعلیٰ رہے پھر وہ خود بھی رہے کیا انہیں بھی کسی ادارے نے کام کرنے اور پنجاب کو بہتر بنانے سے روکا تھا۔ اگر آج بھی لوگوں کو لاہور میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو اس کا
ذمہ دار بھی کوئی ادارہ ہے۔ ضرور بات کریں لیکن قوم کو یہ بھی بتائیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر سب سے پہلے حملے کس نے شروع کیے تھے۔ اس فوج مخالف بیانیے اور فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی مہم کس نے شروع کی، جلسوں میں افواجِ پاکستان کے سربراہ پر الزامات عائد کرتے رہے۔ یہ چند کردار ہیں۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو یہ باتیں کرتے ہیں۔ کیا انہیں کبھی کوئی سہولت نہیں ملی۔ کیا انہیں بغیر کسی کوشش اور خدمت کے اقتدار ملا ہے۔
یہ سب مل کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑے ہیں یہ صرف اور صرف اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ پتہ لگنا چاہیے کہ یہ کس کے دشمن ہیں، کیا مخالف جماعت کے اراکین اسمبلی کے دشمن ہیں ، کیا یہ قومی سلامتی کے دشمن ہیں، کیا یہ ملک کی ترقی کے دشمن ہیں، کیا یہ دفاع کے دشمن ہیں۔ کسی نہ کسی کے دشمن تو ضرور ہیں۔
تبصرہ لکھیے