ہوم << قوم کو تقسیم نہیں متحد کریں- محمد اکرام چودھری

قوم کو تقسیم نہیں متحد کریں- محمد اکرام چودھری

مجھے یہ الفاظ ہمیشہ متحرک کرتے ہیں، میرے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کرتے ہیں، میری وطن سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، میری کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، یہ میرا خواب بھی ہے، میرا یقین ہے اور میرا عزم بھی ہے۔

مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ قوم متحد ہو گی، یہ قوم تقسیم نہیں ہو گی، یہ قوم کبھی اس وطن کی سلامتی کے خلاف آگے نہیں بڑھے گی، یہ قوم کبھی انجانے میں بیرونی دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھائی گی، یہ قوم ملک کی حفاظت کرے گی، یہ دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر ملک دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنائے گی۔ یہ قوم متحد رہے گی، یہ قوم تقسیم نہیں ہو گی لیکن آج کالم کا آغاز اسی سوچ کے ساتھ ہے۔ قوم کبھی ملکی سلامتی کے خلاف کسی مہم کا حصہ نہیں بنے گی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس سفر میں قوم کو تقسیم کرنے والوں کو ضرور یاد رکھا جائے گا۔ آج پنجاب میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ سیاست دان اپنا اپنا موقف عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

جتنے بھی لوگوں نے عوامی اجتماعات میں تقاریر کی ہیں وہ عوام کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ ووٹرز کسی بھی جماعت سے سیاسی قائدین کو حریف سیاسی جماعت کے ووٹرز کو عزت کے ساتھ مخاطب کرنا چاہیے، اسی طرح حریف سیاسی جماعت کے قائدین کو بھی ان کا جائز مقام ضرور دینا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، مخالف سیاسی جماعت کے قائدین اور ووٹرز کو نامناسب انداز میں مخاطب کیا جاتا ہے، کیا کسی کے سیاسی نظریات کی حمایت نہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے منفی انداز سے پکارنا شروع کر دیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ قوم کو تقسیم کرنے کی خطرناک مہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اگر یہ روش برقرار رکھی تو پاکستان میں نفرت بڑھے گی۔

ممکن ہے لوگوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انجانے میں یا سیاسی مفادات کو حاصل کرنے میں "رہنما" اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ انہیں انداز ہی نہیں ہے کہ وہ قوم میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں لیکن اس ملک کے محب وطن اور وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر تن من قربان کرنے والے کبھی نفرت پھیلانے والوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے سیاستدان انتخابات جیتنے کے لیے منفی باتیں کرتے ہیں حالانکہ دل محبت سے جیتے جاتے ہیں، قافلے اعتماد، احساس اور محبت کے جذبات سے آگے بڑھتے ہیں۔ کوئی "رہنما" تو ایسے ضرور آئے گا جو محبت کی بات کرے گا، درگذر کا سبق دے گا، معاف کرے گا، سچ بولے گا اور مستقبل بہتر بنانے کے لیے سب کو ساتھ بٹھائے گا۔ یاد رکھیں یہ ضرور گا کیونکہ اس ملک کی بنیاد ایمان، ایمانداری اور خلوص کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ یہاں لوگوں نے آزادی کے لیے خوشی خوشی خون دیا ہے۔ اس لیے کوئی اس قوم کو تقسیم نہیں کر سکتا۔

آج ہونے والے انتخابات کے حوالے سے بھی سیاسی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ قوم تقسیم ہو جائے۔ یہ سوچ افسوسناک تو ہے۔ کچھ حالات ایسے ضرور ہیں جب یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے حکمراں جماعت انتخابات جیتنے کے لیے شاید سرکاری وسائل استعمال کر رہی ہے۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے، یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اس لیے اگر سرکاری وسائل یا اختیارات کا استعمال ہو رہا ہے تو کرنے دیں یہ پاکستان کی روایت ہے، یہاں ہمیشہ انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہمیشہ کسی کی حمایت سے ہی انتخابات میں کامیابی ملتی ہے۔ کبھی حالات کسی ایک کے لیے بہتر ہوتے ہیں اور سب کچھ اس کے لیے بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہوتا ہے، کبھی حالات کسی اور سیاسی جماعت کے لیے بہتر ہوتے ہیں اور وہ جماعت موافق حالات سے فائدہ اٹھا کر حکومت بناتی ہے۔

آج بھی ایسا ہی ہے۔ یہ فیصلہ بھی سیاست دانوں نے ہی کرنا ہے کہ انہوں نے جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے کن بنیادوں پر کام کرنا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں تو پہلے خود کو جمہوریت پسند بنانا ہو گا اور خود کو جمہوری اقدار پر عملدرآمد کے لیے مثال بنانا ہو گا۔ پاکستان تحریکِ انصاف لگ بھگ پونے چار سال تک حکومت میں رہی اگر اس دوران وہ تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بناتے ہوئے کارکنان کے ساتھ تعلق کو مضبوط بناتی تو حالات مختلف ہوتے۔ پی ٹی آئی کو نقصان اعلیٰ قیادت کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے پہنچا ہے۔ تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے کسی نے باہر سے نہیں آنا تھا لیکن اسے نظر انداز کیا گیا۔ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کو پنجاب میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ بعض حلقے یہ سوال ضرور اٹھا رہے ہیں کہ حکومتی اقدامات ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں اور ان دنوں ہونے والے اکثر فیصلے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی کیا سوچ رہا ہے۔ کیا عام آدمی مسلم لیگ کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے یا پھر عمران خان کا بیانیہ لوگوں کی سوچ بدلنے میں کامیاب ہوا ہے۔

عمران خان اس ملک کے وزیراعظم رہے لوگوں کو ان سے گلے شکوے تو ہیں لیکن ان کے سننے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ہی اس ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ "ملک بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جمہوری رویے اپنانے ہوں گے۔" عمران خان قوم کو یہ بھی ضرور بتائیں کہ اگر جمہوری رویے اتنے ضروری ہیں تو انہوں نے اپنے دور حکومت میں غیر منتخب افراد کو کیوں اہم عہدوں پر لگایا، کیا یہ جمہوری رویہ ہے، کیوں منتخب افراد کی موجودگی میں عیر منتخب افراد کو اہمیت دی گئی۔

خان صاحب کہتے ہیںلیڈر کیلئے یو ٹرن بہت ضروری ہوتا ہے، غلطیاں ہو سکتی ہیں آپ کو پتا ہے کہ غلطی ہوگئی تو واپس ہوجائیں۔" خان صاحب دوسروں کو غلطیاں یاد تو کروا رہے ہیں لیکن کیا انہوں نے غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے یہ طے کون کرے گا کہ غلطی عمران خان کی ہے یا کسی اور کی۔ خان صاحب آج بھی دوسروں کو سبق پڑھا رہے ہیں حالانکہ یہ وقت ان کے لیے خود احتسابی کا ہے۔ ان کی باتوں پر عوام نے توجہ دی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو آج ہو جائے گا لیکن جو لوگ یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ قوم تقسیم ہو سکتی ہے ان شاء اللہ ان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔