ہم اخلاقی اعتبار سے زوال کے دور سے گزر رہے ہیں، عام آدمی کی تو بات ہی چھوڑیے،وہ لوگ جو قوم کی قیادت کے منصب پر فائز ہیں یا اس منصب کے طلب گار ہیں، انھیں اپنی زبان وبیان پر قابو نہیں، وہ گالی گلوچ کرنا ، دوسروں کی تحقیر کرنا، دوسروں پر الزام واتّہام باندھنا اور خود کو ہرغلطی سے مبرّا اور پاک باز سمجھنا ان کا روزمرّہ شِعار بن چکا ہے، بڑے اور چھوٹے کی تمیز ختم ہوچکی ہے ، لوگ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرّم ﷺ کے احکام کو پسِ پشت ڈال کر اپنے ان رہنمائوں کے پیروکار بن چکے ہیں.
آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے تصور کو فراموش کرچکے ہیں، خود ہی مُدّعی ،خود ہی شاہد اور خود ہی منصف بنے بیٹھے ہیں، بلکہ اپنے آپ ہی کو معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ایسے میں اصلاح کی توقع عبث ہے، کسی کے دماغ میں کسی کے لیے بغض ، عداوت یا نفرت بھری ہوئی ہے ، جب تک وہ خاموش رہے اُس پر پردہ پڑا رہتا ہے ، لیکن جب وہ بول پڑے تو اندر کا سارا غبار اوربغض باہر نکل آتا ہے اور پھر دوسرا فریق بھی ردِّ عمل میں اس کی آبروریزی کے درپے ہوجاتا ہے، یوں ’’اس حمام میں سب ننگے ہیں ‘‘کا منظر آپ کے سامنے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:’’(درحقیقت) مسلمان وہی ہے جس کی زبان اورہاتھ کی تعدّی سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، (بخاری:6484)‘‘۔ صرف ایک زبان سے کتنے فتنے پھوٹتے ہیں، اس کا اندازہ آپ ان احادیثِ مبارکہ سے بخوبی لگاسکتے ہیں:
(۱)رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو مجھے اُس چیز کی (شریعت کے تابع رکھنے کی) ضمانت دے گا جو دو داڑھوں اور دو ٹانگوں کے درمیان ہے(یعنی زبان اور شرمگاہ) ،میں اُسے جنت کی ضمانت دوں گا ، (بخاری:6474)‘‘،(۲)’’ نبی ﷺ سے سوال ہوا: وہ کون سے امور ہیں جو اکثر جنت میں داخل ہونے کا باعث بنتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تقویٰ اور اچھے اخلاق، پھر سوال ہوا: وہ کون سے امور ہیں جو اکثر جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: زبان اور شرمگاہ، (ابن ماجہ:4246)‘‘، (۳)’’جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی، ( ترمذی:2501)‘‘، (۳)’’جب بنی آدم صبح کرتا ہے تو اُس کے تمام اعضاء زبان کے تابع ہوتے ہیں اور اُس سے کہتے ہیں:ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہ، کیونکہ ہمارے حقوق کی حفاظت تمہارے سبب ہے ،اگر تو صحیح رہے گی تو ہم بھی صحیح رہیں گے اور اگر تو کجی اختیار کرلے گی تو ہم میں بھی کجی آجائے گی ،( ترمذی:2407)‘‘، (۴)’’سفیان بن عبداللہ ثقفی نے عرض کی: یارسول اللہ!مجھے وہ چیز بتائیے جسے میں مضبوطی سے تھام لوں، آپﷺنے فرمایا:کہو:میرا رب اللہ ہے،پھر اس پر ثابت قدم رہو ، میں نے عرض کی:یارسول اللہ!وہ کون سی چیز ہے جس سے مجھے سب سے زیادہ خوفزدہ رہنا چاہیے ،آپ ﷺنے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑ کر فرمایا:یہ ،(ترمذی:2410)‘‘۔
آپ نے غور فرمایا :صرف زبان کا بے قابو رہنا اور زبان کا غلط استعمال کتنے فتنوں اور فساد کا سبب بنتا ہے ، آئے دن ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں کہ دوستوں کے درمیان گپ شپ سے معاملہ شروع ہوتاہے اورقتل وغارت پر مُنتج ہوتا ہے، صرف زبان درازی کے سبب ایسا ہوتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے ڈھال بنیں ، ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کریں، ایک دوسرے کو سرِ بازار رسوا نہ کریں، قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’اپنے عیوب بیان نہ کرو ،(الحجرات:۱۱)‘‘، ظاہر ہے اپنا عیب تو کوئی بیان نہیں کرتا، قرآنِ کریم نے نہایت حکیمانہ انداز میں تعلیم فرمایا: ہم جس دوسرے شخص کے عیب بیان کریں گے، وہ بھی تو ہمارا دینی بھائی ہے، اس کی عزت کی حفاظت بھی تو ہماری ذمے داری ہے، احادیث مبارکہ میں ہے:
نبی ﷺنے فرمایا:جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے عیب پر پردہ ڈالے گااور جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کی پردہ دری کی تو قیامت میں اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کو فاش کردے گاحتیٰ کہ اُسے اپنے گھر میں رسواکردے گا، (ابن ماجہ:2546)‘‘،(۲)’’جو کسی مسلمان کی ایسی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس وقت تک’’رَدْغَۃُ الْخَبَال‘‘ میں رکھے گا جب تک کہ اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو جائے، (ابودائود:3597)‘‘۔ ’’رَدْغَۃُ الْخَبَال‘‘ جہنم کی اُس وادی کو کہتے ہیں جس میں جہنمیوں کا پیپ اور خون جمع ہوتا ہے۔ معراج النبی کے موقع پررسول اللہﷺکا گزر ایک چھوٹے پتھر کے پاس سے ہوا جس سے روشنی نکل رہی تھی، آپﷺنے دیکھا:اُس سے ایک بیل نکلا، پھر وہ اُسی سوراخ میں واپس داخل ہونا چاہتا ہے مگر داخل نہیں ہو پاتا، آپﷺنے جبریل سے پوچھا:یہ کیا ہے؟، انہوں نے کہا:یہ اُس شخص کی مثال ہے جو سوچے سمجھے بغیر بات کر لیتا ہے، پھر اس پر نادم ہوکر اُسے واپس لینا چاہتا ہے، مگر ایسا کر نہیں سکتا ،(دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِیْ، ج:2، ص:397)‘‘۔
آئے دن لوگ بیان دیتے ہیں ،جب اس کا ردِّعمل سامنے آتا ہے یا تو اُس سے انکاری ہوجاتے ہیں یا یہ حیلہ سازی کرتے ہیں کہ میری بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ آپ کو ایسی ذومعنیٰ بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ جو آگے چل کرفتنہ وفساد اور نفرت انگیزی کا سبب بنے، حدیث پاک میں ہے:
’’ایک انسان سوچے سمجھے بغیر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیتا ہے،جو اُسے جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک گرا دیتا ہے جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ ہے ،(بخاری:6477)‘‘(۲)حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے: آپ نے فتنے کا ذکر کیا یا آپ کے پاس فتنے کا ذکر ہوا،آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم دیکھو کہ لوگوں کی زبانیں دوسروں کی آبرو کو پامال کریں اور امانتوں کی حفاظت کو ہلکا سمجھنے لگیں ، آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ملاکر فرمایا: اس طرح ہوجائیں،راوی بیان کرتے ہیں: میں کھڑا ہوا اور عرض کی: (یارسول اللہ!) میری جان آپ پر قربان ہو ، مَیں ایسے وقت کیا کروں، آپ ﷺ نے فرمایا:اپنے گھر میں رہو ،اپنی زبان کو روکے رکھو ، کوئی اچھی بات آئے تو اُسے لے لو اور بری بات آئے تو اُسے چھوڑ دو اور اپنی فکر کرو اور لوگوں کی فکر چھوڑ دو، (مصنف ابن ابی شیبہ:37115)‘‘، (۳)’’مومن لعن طعن کرنے والا، فحش گو اور بدزبان نہیں ہوتا ،(ترمذی:1977)‘‘۔
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تک مومن کا دل صحیح نہ ہو، اس کا ایمان صحیح نہیں ہوسکتااور جب تک اس کی زبان صحیح نہ ہو،اس کا دل صحیح نہیں ہوسکتا اور جس شخص کا پڑوسی اُس کی زیادتیوں سے محفوظ نہ ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، (مسند احمد:13048)‘‘،(۲)’’اسلم بیان کرتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب حضرت ابوبکرکے پاس آئے تو وہ اپنی زبان کو پکڑے ہوئے تھے، انھوں نے پوچھا: اے خلیفۂ رسول! آپ کیا کر رہے ہیں، حضرت ابوبکر نے فرمایا: یہی وہ چیز ہے جو خطرے کے مقامات پر لانے کا سبب بنتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسم کا ہر حصہ زبان کی تیزی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہے، (شعب الایمان:4596)‘‘، (۳)’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو لوگوں کی آبرو پامال کرنے سے روکے رکھا، اللہ تعالیٰ روزِقیامت اُس کی لغزشوں کو معاف فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر قابو پائے رکھا، اللہ تعالیٰ روزِقیامت اُسے اپنے عذاب سے بچائے گا، (الزہد والرقائق لابن المبارک:745)‘‘،(۴)’’ جو اللہ اور روزِقیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے ،جو اللہ اور روزِقیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو اللہ اورروزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے، (بخاری:6018)‘‘،(۵)’’ایک دیہاتی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: یارسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے بڑے مسئلے کو مختصر الفاظ میں پوچھا،(پھر فرمایا:)کسی کو آزاد کرو، کسی بوجھ تلے دبی ہوئی گردن کو آزاد کراؤ،اس نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا یہ دونوں باتیں ایک ہی نہیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں،بندے کو آزاد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم اکیلے یہ سعادت حاصل کرو اور گردن آزاد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم اس مشن میں اس کے مددگار بنو، عطیہ تھوڑا تھوڑا کر کے دینا چاہیے ،قرابت دار ظالم بھی ہو تو اس کے ساتھ احسان کا برتائو کرنا چاہیے، اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو بھوکے کو کھانا کھلائو، پیاسے کو پانی پلائو ، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اگر تم اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے تو اپنی زبان کو شر سے روکے رکھو،صرف خیر کی بات کرو، (مسند احمد:18647)‘‘۔
(۶)’’آدم بن علی بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے بھائی ،رسول اللہ ﷺ کے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگوں کی تین قسمیں ہیں: (۱) سالِم :یعنی جو خاموش ہو، (۲) غَانِم : جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے ،(۳) شاجِب :جو فُحش گو ہو اور ظلم پر مددگار بنے، (مصنف ابن ابی شیبہ:35579)‘‘،(۷) ’’احنف بن قیس بیان کرتے ہیں: مجھ سے حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: احنف! جو زیادہ ہنسنے والا ہو، اس کا رُعب ختم ہوجاتا ہے ، جو (زیادہ) مزاح کرنے والا ہو، وہ بے قدرا ہوجاتا ہے ، جو کثرت سے کوئی کام کرے، وہی اُس کی شناخت بن جاتا ہے ، زیادہ باتونی آدمی غلطی بھی زیادہ کرتا ہے اور جو زیادہ غلطی کرے،اس میں حیا کی کمی ہوتی ہے اورجس میں حیا کم ہوجائے ،اس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اور جس کا تقویٰ کم ہوجائے، اس کا دل مر جاتا ہے، (المعجم الاوسط:2259)‘‘،(۸) ’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتوں کو چھوڑ دے، (ترمذی:2317)‘‘،(۹) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک شخص ایسی بات کرتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے اور وہ اُسے معمولی بات سمجھتا ہے، پھر اُسی کے سبب وہ ستّر برس تک جہنم کی آگ میں لڑھکتا رہتا ہے، ( ابن ماجہ:3970)‘‘،(۱۰)نبی ﷺ نے فرمایا:’’اپنے بھائی سے نہ کج بحثی کرو ، نہ اُس سے مزاح کرو اور نہ اُس سے ایسا وعدہ کرو کہ جسے وفا نہ کرسکو، (ترمذی:1995)‘‘۔
تبصرہ لکھیے