اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے مجھے پنجاب کے ضمنی انتخابات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے تھی۔اس سے گریز کو مگر ترجیح دوں گا۔ کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے پاکستان میں اب ’’تجزیے‘‘ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
تحریک انصاف کے حامی صحافیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی جماعت کو ’’لوٹوں‘‘ کا صفایا کرتے ہوئے دکھائیں۔یہ اگر ممکن نہیں تو ایسے ’’ثبوت‘‘ فراہم کریں جو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کو ’’نیوٹرل‘‘ کے ’’مسٹر ایکس ‘‘ وغیرہ کی مدد سے ’’ہونی‘‘ کو ’’دھاندلی‘‘ کے ذریعے ٹالتا دکھائیں۔ مسلم لیگ (نون) کے حامی ان کے برعکس اپنی ’’بھرپور جیت‘‘ کی نوید سننا چاہ رہے ہیں۔
انتخابی عمل کا جائزہ 1984ئسے میرا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے۔ اس کے لئے مگر حلقوں میں جاکر کئی دنوں تک لوگوں میں گھل مل جانے کی خواری درکار ہے۔عمربڑھنے کے ساتھ نازل ہوئی کاہلی اب اس کی اجازت نہیں دیتی۔اپنے گھر سے چند قدم پر واقع مارکیٹ سے فوری ضرورت کی اشیاء خریدنا بھی ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔اس عالم میں خوشاب،جھنگ یا مظفر گڑھ کے دور دراز علاقوں کے انتخابی نتائج کا گھر بیٹھے اعلان کردینا میری دانست میں فقط جاہلانہ ڈھٹائی ہوگی۔
فرض کیا اتوار کے روز ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتیجے میں حمزہ شہباز شریف بالآخر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہ رہیں تب بھی بجلی کی نایابی والا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا۔چند دن قبل کافی باخبر اور صاحب علم افراد سے تفصیلی گفتگو کے بعد اس کالم میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ کوئلہ،گیس اور فرنس آئل وغیرہ کے ذریعے پیدا ہوئی بجلی عام صارفین تک بلاتعطل اور ارزاں نرخوں پر فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔ حکومت میں خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت براجمان ہو اسے بالآخر شمسی توانائی ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کو ورلڈ بینک بھی جان چکا ہے۔موسمی تبدیلیوں نے دنیا کے امیر ترین ممالک کو بھی سولر کی جانب راغب ہونے کو مجبور کردیا ہے۔یہ رغبت پاکستان کے لئے بہت سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ہمیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میری اطلاع کے مطابق ورلڈ بینک پاکستان میں سولر انرجی کے فروغ کے لئے پاکستان کو دو فیصد شرح سود پر خاطر خواہ رقم فراہم کرنے کو تیار ہے۔ اس رقم کی بدولت ہمارے بینک چھ فی صد کی شرح پر عام صارف کو سولر پلانٹ لگانے کے لئے دس سے پندرہ لاکھ روپے بطورقرض فراہم کرسکتے ہیں۔غالباَ دو لاکھ روپے کی یکمشت ادائیگی کے بعد قرض کی بقیہ رقم پانچ سالوں کے دوران نسبتاََ آسان اقساط میں ادا کی جاسکتی ہے۔شوکت ترین صاحب نے مگر گزرے مالی سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے سولر انرجی سے متعلق سازوسامان کی درآمد اور خرید وفروخت پر 17فی صد ٹیکس لگادیا تھا۔اس کی وجہ سے صارفین مہنگے ہوئے سولر پینل خریدنے سے گھبرانا شروع ہوگئے۔ مفتاح اسماعیل نے رواں مالی سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے وہ ٹیکس ہٹادیا ہے۔بینکوں سے آسان اقساط اور نسبتاََ کم شرح سود پر قرض کی سہولت اور سولر انرجی کے ذرائع پر ٹیکس کے ہٹائے جانے کے بعد ہمارے متوسط طبقے کی اکثریت کے لئے شمسی توانائی کی جانب راغب ہونا اب دشوار نہیں رہا۔ اس ضمن میں البتہ متوقع ’’رونق‘‘ نظر نہیں آرہی۔
ممکنہ رونق نظر نہ آنے سے میں پریشان ہوا۔ گھریلو صارفین سے کہیں زیادہ مجھے فکر کاشتکاروں کی ہے۔روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پوری دنیا بہت تیزی سے غذائی بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔اپنی زراعت پر توجہ دیتے ہوئے ہم خود کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ غذائی پیداوار بہتر بنانے کے لئے پانی مگر کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔اس ضمن میں ٹیوب ویل پر انحصار کرنا ہوتا ہے جسے ڈیزل یا بجلی سے چلایا جاتا ہے۔ڈیزل کی قیمت آسمان کو چھورہی ے اور آئندہ کئی برسوں تک اس میں کمی کی امید نہیں۔بجلی بھی مہنگی ہوتی چلی جارہی ہے۔ گراں قیمت پر خریدی بجلی سے ٹیوب ویل چلانے کو آمادہ کاشت کار بھی لیکن گزشتہ تین مہینوںسے حواس باختہ ہوچکے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے انہیں ٹیوب ویل وقفوں وقفوں سے چلانا پڑرہا ہے۔ پانی کی ترسیل کے دوران مگر جو وقفے آتے ہیں وہ زمین کو خاطر خواہ اندازمیں سیراب نہیں کر پاتے۔ ایسے حالات میں واحد حل ٹیوب ویل کو سولر انرجی کے ذریعے چلانا ہی رہ جاتا ہے۔
کمرشل بینکوں کے ساتھ لین دین کی بدولت ہمارے بے تحاشہ درمیانے درجے کے کاشتکار اپنی ’’ساکھ‘‘ بناچکے ہیں۔وہ اپنے ٹیوب ویلوں کو سولر انرجی کے ذریعے چلانا چاہیں تو بینک انہیں نسبتاََ کم شرح سود پر قرض دینے کو بخوشی آمادہ ہیں۔ٹیوب ویل کو حکومت کی فراہم کردہ بجلی کے بجائے سولر انرجی پر چلانے کے لئے مگر آپ کو وہ میٹر لگوانا ہوتا ہے جسے ان دنوں ’’گرین میٹر‘‘ پکارا جارہا ہے۔اس میٹر سے آپ کے ہاں سولر سے پیدا ہوئی بجلی ’’مین گرڈ‘‘ میں بھی چلی جاتی ہے۔
مطلوبہ میٹر کے حصول کے لئے آپ کو واپڈا کے مقامی دفاتر سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ان سے رابطہ کریں تو سب سے پہلے وہ آپ کو ’’تھری فیز‘‘والے میٹر پر منتقل ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔آپ تیار ہوجاتے ہیں۔واپڈا کے حکام وعملہ لیکن ’’تھری فیز‘‘ والا میٹر لگانے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔مجھے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ ٹال مٹول کی اصل وجہ کیا ہے۔جی ہاں فائل کو ’’پہیہ‘‘ لگانے والی بات ہے۔تھری فیز والا میٹر لگ بھی جائے تو ’’گرین میٹر‘‘ کے لئے اسی باعث مزید کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ تین دن میں اسلام آباد او گردونواح کے علاقوں میں مقیم لوگوں سے رابطے میں رہا۔ ان سے گفتگو کے بعد دریافت ہوا کہ ان دنوں ’’گرین میٹر‘‘ پر منتقل ہونے کا اوسطاََ ’’ریٹ‘‘ پچاس ہزار روپے چل رہا ہے۔
اپنے گھر کو آج سے چھ ماہ قبل میں نے سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس ضمن میں ’’تھری فیز‘‘ کے لئے چھ سے زیادہ ہفتے انتظار کرنا پڑا۔ وہ لگ گیا تو میرے گھر کی سولر کمپنی نے چھت کو پینلوں سے ڈھانپ دیا۔ ان سے پیدا ہوئی بجلی استعمال کرنے کے لئے مگر مجھے دو سے زیادہ مہینے انتظار کرنا پڑا کیونکہ ’’گرین میٹر‘‘ نصب نہیں ہوپارہا تھا۔ بالآخر تنگ آکر چند حکام کے ہاں ذاتی حاضری دینا پڑی۔ ’’صحافی‘‘ ہونا اس ضمن میں کارگر ثابت ہوا اگرچہ ’’لفافہ‘‘ مشہور ہوجانے کی وجہ سے اس پیشے سے اُکتا گیا تھا۔
بجلی کا محکمہ ان دنوں خرم دستگیر خان صاحب کے پاس ہے۔ وہ انجینئربھی ہیں اور میری دانست میں ایک مستعد شخصیت بھی۔وہ چاہیں تو اپنے دفتر میں ایسی سکرین نصب کرسکتے ہیں جو آج کے ڈیجیٹل دور میں انہیں ہمہ وقت آگاہ رکھے کہ ان کے محکمے کے پاس روزانہ کی بنیاد پر کتنے افراد کی جانب سے تھری فیز اور گرین میٹروں پر منتقل ہونے کی درخواستیں آرہی ہیں۔ان درخواستوں کی پذیرائی میں کتنا وقت صرف ہورہا ہے اور اگر غیر معمولی تاخیر ہورہی ہے تو ’’باعث تاخیر‘‘کونسے اسباب ہیں۔
تبصرہ لکھیے