ہوم << مردوں کا استحصال - مولوی روکڑا

مردوں کا استحصال - مولوی روکڑا

آج کل میں جب تحریک نسواں کی متحرک آنٹیوں اور ان کے ساتھ کھڑے "شمیم" نما مردوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کا آنسو روتا ہے. ایک مرد کی کوئی عزت ہی نہیں ہے. "میری پسند میرا بدن" جیسی ویڈیو سے یہ ہمیں کیا بتانا چاہتے ہیں کہ مرد مرد نہیں بلکہ درندہ ہے. کچھ دن پہلے کی بات ہے، میں ایک جہاز میں سفر کر رہا تھا، آگے والی نشست پر ایک خاتون جہاز کے کیبنٹ میں اپنا دستی سامان نہیں رکھ پا رہی تھی. یہ دیکھتے ہی ہم تین چار مرد حضرات نے خدمت خلق کے جذبے کے تحت اپنی خدمات پیش کر دیں . چونکہ میں پچھلی نشست پر تھا تو یہ نیک کام کرنے کا شرف مجھے حاصل ہوا، لیکن اس خاتوں کے ساتھ والی سیٹ پر کیا دیکھتا ہوں کہ تین چار ہٹی کٹی لمبےقد والی خواتین بھی تشریف فرما تھیں لیکن کسی کو خیال نہ آیا کہ اس بےچاری چھوٹے قد والی خاتون کی مدد ہی کر دیں. ایسے واقعات روزانہ آپ کے اردگرد ہوتے ہوں گے. مرد نے ہمیشہ "سب سے پہلے خواتین " کا نعرہ بلند کیا اور اس پر عمل کیا ہے. بینک میں لگی لائن ہو یا پھر بس کی نشست، مرد ہی اپنی مرضی و خوشی سے قربانی کا بکرا بنتا آیا ہے. مجھے سمجھ نہیں آتی یہ ڈالر خور آنٹیاں اور شمیم مرد کون سے حقوق کی بات کرتے ہیں. کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ کہ ہمیں معلوم ہو اور ہم کچھ خدمت کر سکیں؟
ہمارے خیال میں تو مرد استحصال کا شکار ہے. آئے دن اس کا نشانہ بنتا ہے. ایک دفعہ میں شام کے وقت آفس سے گھر جا رہا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت بھرے بازار میں اپنے مرد کی پٹائی کر رہی تھی. دیکھ کر سوچا کہ وجہ ہی معلوم کرلوں. پتا چلا مرد بےچارے نے اس کی ایک پرانی دشمن خاتون کو فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ انویٹیشن بھیج دی تھی، جس سے بعد میں اسی دشمن خاتون نے متعلقہ پارٹی کو مطلع کر دیا تھا. پٹنے والے مظلوم مرد اپنا دکھڑا کسی کو سنا بھی نہیں سکتے. چلو مان لیا شادی سے پہلے تھوڑا ہم لا پرواہ قسم کے ہوتے ہیں لیکن قسم لے لو شادی کے اگلے دن ہی بیوی سب سے پہلے اپنے شوہر کے نئے موبائل پر قبضہ کرتی ہے. اور اگر شوہر بےچارہ انکار کر دے تو منہ بن جاتا ہے اور پندرہ دن کے لیے میکے میں مکلاوا جانے کی دھمکی آ جاتی ہے. پہلے دن ہی موبائل پر قبضہ کرنے کا مقصد صرف سابقہ چکروں کا سراغ لگانا ہوتا ہے جس کی بنیاد زیادہ تر شک و شبہ پر ہوتی ہے.
مرد بےچارہ ہفتے میں اگر ناخن کاٹنا بھول جائے تو سب سے پہلا طعنہ آتا ہے کہ زنانی بن گیا ہے کیا؟ لیکن اگر کوئی خاتون مردوں جیسے بال کٹوا کر آ جائے تو فیشن کی اصطلاح کا سہارا لے کر بواۓ کٹ کا نام دیا جاتا ہے. بواۓ کٹ فیشن کا نمونہ اتنا مقبول ہوا ہے کہ خواتین سیاستدان بھی اس میں مبتلا نظر آتی ہیں. مرد نے اگر شرٹ کے بٹن کھولے ہوں اور چھاتی کے بالوں کا گجن نظر آ رہا ہو تو بھی یہ سوسائٹی جملے کستی ہے لیکن اگر کسی خاتون نے کھلے گلے والی کوئی قمیض یا شرٹ پہنی ہوئی ہو تو قصوروار مرد کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ تم مردوں کو بس ایک ہی چیز نظر آتی ہے.گلیمر کے نام پر عورتوں کی نیلامی خود کرتے اور اس کا ازالہ مردوں سے کروانا چاہتے ہیں. اگر عورتوں کی آزادی کا مطلب ننگ دھڑنگ ہے تو مردوں کی آزادی کا مطلب کیا ہونا چاہیے؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ عورت آخر اپنے جسم کی نمائش کیوں کرتی ہے؟ اس لیے نا کہ مرد اسے دیکھے. اب جب وہ خود یہ چاہتی ہے تو پھر مرد کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟ کیا کبھی کسی مرد نے کسی عورت سے کہا کہ وہ ایسےگھر سے باہر نکلے؟ اگر نہیں تو پھر کیا مجبوری ہے کہ جسم کی نمائش کی جائے؟ کیا کوئی حقوق نسواں کا ٹھیکیدار اس سوال کا معقول جواب فراہم کر سکتا ہے؟

Comments

Click here to post a comment