ہوم << قربانی کے رُوپ- امجد اسلام امجد

قربانی کے رُوپ- امجد اسلام امجد

بہت زمانے تک عیدِ قرباں سے متعلق کالموں یا تحریروں میں اس قسم کے اشعار بکثرت استعمال ہوتے تھے اور ہر کوئی ان کا مزہ بھی لتیا تھا کہ

یہ عجیب رسم دیکھی کہ بروزِ عید قرباں

وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا

غریب، سادھ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہائت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیل ؑ

لیکن غور سے دیکھا جائے تو عیدالاضحی تو بلاشبہ سال میں ایک بار اور اپنے مخصوص وقت پر ہی آتی ہے مگر قربانی اور اسکے رنگا رنگ رُوپ قدم قدم پر ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آتے رہتے ہیں اور اسکی مذہبی توضیح سے قطع نظر انسانی زندگی میں جو چیزیں ہمیں آدمی سے انسان بناتی ہیں اُن میں ایک بڑا حصہ قربانی کا بھی ہے جسے عرفِ عام میں ایثار کا نام دیا جاتا ہے اگرچہ دین اسلام میں اس پر بہت واضح اور علامتی دونوں حوالوں سے بہت زور دیا گیا ہے مگر اس کی تبلیغ کسی نہ کسی حوالے سے دنیا میں موجود ہر مذہب اور فلسفے میں کم یا زیادہ جاری و ساری نظر آتی ہے کہ اسکا تعلق انسان کی فطرت سے ہے اپنے کسی پیارے یا محترم یا بعض صورتوں میں محض واقف کار کے لیے بھی اپنا حصہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا یا کسی کی بہتری کے لیے جانتے بوجھتے ہوئے اپنا نقصان کر لینا یا کسی اصول کی خاطر اپنی جان و مال کو دائو پر لگا دینا بھی قربانی و ایثار کی مختلف قسمیں ہیں جن کا تعلق ایمانیات اور اخلاقیات دونوں سے ہے ۔

انسانی تاریخ کے مختلف ادوارمیں اپنے اپنے رنگ میں اسکی موجودگی باآسانی اور نسبتاً افراط کے ساتھ دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے مگر جدید نظامِ زر اوردولت و طاقت سمیت دیگر وسائل پر اجارہ ارانہ قبضے کی اندھی دوڑ میں یہ اندازِ فکر پہلے ہماری اجتماعی زندگیوں سے غائب ہوا اور پھر انفرادی سطح پر بھی لالچ، سنگ دلی، خود غرضی اور ایک بیمار طرز کے احساسِ ملکیت نے اسے ہمارے اندر سے بھی تقریباً دیس نکالا دے دیا ہے ۔

اس سوال کی پیچیدگی سے قطع نظر کہ ’’سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی‘‘ آج کے نوجوان کے ذہن و دل میں یہ بات اُتار نی بہت مشکل ہوگئی ہے کہ اپنا نقصان کرکے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچنے سے ہمیں کیوں ، کیسے اور کیا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ تو Live for othersکی تلقین سن کر اُلٹا یہ سوال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ اگر ہم نے دوسروںکے لیے جینا ہے تو پھر دوسروں کی زندگی کا کیا مقصد ہے ؟ یعنی انھوں نے کس کے لیے جینا ہے بدقسمتی سے ہمارے اردگرد کی زندگی میڈیا اور لیڈرانِ کرام کی زبان اور اُنکا طرزِ کلام ایسا ہے کہ اُنکے ہوتے ’’قربانی‘‘ کی نوعیت اور اہمیت کو واضح کرنا واقعی ایک بہت مشکل کام بن گیا ہے سو میں براہ راست بحث میں اُلجھنے کے بجائے کچھ ایسی اچھی ، بامعنی اور قابلِ غور و تقلید باتوں کا ذکر کرتا ہوں جو حالیہ دنوں میں مجھے دیکھنے پڑھنے یا سننے کو ملی ہیں انکے بھجوانے والوں میں ڈاکٹر اسلم ڈوگر، ڈاکٹر فرید احمد،شفیق عباسی ا ور کئی بے نام مہربان بھی ہیں ان سب کا شکریے کے ساتھ میں ان باتوں کو صدقہ جاریہ کے طور پر اس عیدِ قربان کے موقع پر آپ سے شیئر کرتا ہوں کہ ا چھی باتیں اچھے ا عمال کی راہبر بھی ہوتی ہیں۔

1۔ کبھی نیکیوں کی کثرت کی خواہش مت کریں ہمیشہ نیکیوں میں استقامت کی خواہش کرتے رہا کریں۔

2۔ قرآن پاک میں جتنی بھی قوموں کی تباہی کا ذکر ہے ا ُن میں سے ایک بھی قوم کی تباہی کی وجہ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ چھوڑنا نہیں تھی بلکہ ان سب کی وجوہات میں کم تولنا، رشوت ستانی، عدل نہ کرنا ،کسی کا حق کھانا، ملاوٹ کرنا ، زیادہ منافع، سُود خوری، بے راہ روی اور دیگر غیر فطری عوامل شامل تھے ۔ لہٰذا اگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو معاملہ صرف اور صرف حقوق العباد کا تھا۔

3۔ اگر ہم اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے انسانوں کو محبت سے دیکھنا شروع کردیں تو آپ محسوس کریں گے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی آپ کو مسکرا کر دیکھ رہے ہیں۔

4۔ محبت دلوںپر وہ کام کرتی ہے جو صابن جسم پر اور آنسو روح پر کیا کرتے ہیں۔

5۔ علم و شعور ، وسیلہ و ذریعہ نہیں بلکہ روشن راستے کی حد ہوتے ہیں۔

6۔ ہماری تباہی ہمیں جس طرف مائل ا ور متوجہ کرتی ہے درحقیقت وہی ہمارے اندرون کی حقیقت ہوتی ہے ۔

7۔ ناشکری انسان کی سرشت میں شامل ہے صحت یاب ہوکر کبھی طبیب کی یاد نہیں آتی اس کی کشتی کسی طوفان میں پھنس جائے تو اسے اُس وقت صرف اللہ رب العزت کی یاد آتی ہے پھر جب وہ اپنے اس مجبورو بے کس بندے کو سمندر سے نکال کرخشکی پر لے آتا ہے تو وہ بندہ ایک دم سب کچھ فراموش کردیتاہے رب کریم ان کو سب سے زیادہ قریب اور عزیز رکھتا ہے جو سکھ کی ہر گھڑی میں عجز و انکساری کو اختیا رکیے رہتے ہیں۔

8۔ باطنی کائنات اتنی پراسرار ہے جتنا انسان کا اپنا باطنی وجود۔ باطن میں ارادہ ہوتا ہے اور ظاہر اس ارادے کے مطابق عمل پیرا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

9۔ جو چیزیں اللہ کریم نے آپ پر فرض نہیں کیں انھیں اپنے اوپر فرض نہ کریں ۔

10۔ اگر علم عاجزی میں ڈھل جائے تو وہ سراپا نور بن جاتا ہے ۔

11۔ اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں، بُرے پڑوسی سے اور ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردے اور ایسی اولاد سے جو میرا آقا بن بیٹھے اور ایسے مال سے جو میرے لیے عذاب کا باعث بن جائے ا ور ایسے چال باز دوست سے جس کی آنکھیں مجھے َتک رہی ہوں اور جس کا دل میرے پیچھے پڑا ہو اور میری ہر نیکی کو دباتا جائے اور ہر برائی کو نشر کرتا جائے۔

12۔ زندگی ہر ایک کو خوش کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کسی کو بھی نقصان نہ پہنچانے کا نام ہے ۔

13۔ ایک چھوٹا ذہن بہانوں میں پناہ لیتا ہے جب کہ ایک روشن دماغ مسائل کے حل میں تیرتا ہے ۔

14۔ جب آپ کا ذہن کمزور ہوتا ہے تو صورتِ حال مسئلہ بن جاتی ہے جب آپ کا ذہن متوازن ہوتاہے تو صورتِ حال ایک چیلنج کی شکل اختیا ر کرلیتی ہے لیکن جب آپ کا ذہن مضبوط ہوتا ہے تو صورت حال ایک ’’موقع‘‘ کی تصویر بن جاتی ہے ۔

15۔ وہ لوگ جنھوں نے سردی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اورغربت صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتے۔

Comments

Click here to post a comment