تم نے جگہ جگہ پہ مجھے بدگماں کیا اپنا نشاں بنا کے مجھے بے نشاں کیا خاموش جب رہا ہوں تو گویا رہا ہوں میں تم نے زبان دے کے مجھے بے زباں کیا اس کے ساتھ ہی ایک خیال رومانس کا کہ دل تھا دھڑکنے لگ گیا تیروں کے خوف سے، ابرو کو تونے جونہی ذرا سا کماں کیا اور پھر ،کتنے ہی سانپ آ گئے پھر رینگتے ہوئے، اک فاختہ نے پیڑ پر کیا آشیاں کیا۔
یہ سب زندگی کے رنگ اور رویے ہیں اور یہی انداز وادا ہے کہ ایک بو قلموئی پیدا کرتی ہے لیکن جب مقصد حیات نہ رہے تو زندگی ڈگر سے ہٹ جاتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ وابستگی اور تعلق انسان کو یکسر بدل دیتا ہے اور بعض اوقات یہ رشتہ دیوانگی کی حد تک بڑھ جاتا ہے مثال بالکل سامنے کی ہے کہ پچھلے دور میں میں نے ایسے لوگ دیکھے جو کہہ رہے تھے کہ پٹرول دو سو روپے لٹر بھی ہو گیا تو ہم پھر بھی خان کے ساتھ ہیں اور اب میں ایسے لوگوں کو بھی سن رہاہوں جو چار سو روپے لٹر تک بھی شہباز شریف کو ہی نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ وقت کے بہائو میں رہنمائوں نے اپنے ماننے والوں کے دماغ بدل دیے ہیں۔ ان میں وحشت در آئی ہے جو معاشرے کے لئے زہر ناک ہے۔ معاشرے میں کبھی ادب آداب لحاظ اور وضعداری ہوتی تھی شاید وہ سنہری اقدار روایات عنقا ہو چکی ہیں مجھے ان باتوں کا خیال عمران خاں کی حالیہ تقریر سن کر ہوا کہ جو اگرچہ نئی نہیں ہے مگر شدت اظہار اور غصہ ہے کسی حد تک آپ اسے جائز قرار دے سکتے ہیں کہ: سعد تلخی ہے جو مجھ میں وہ کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا کہنا میں چاہوں گا کہ آپ کے تخاطب میں تضحیک نہیں ہونی چاہیے مثلاً آپ جب خود ڈاکو ‘ چیری بلاسم زرداری بیماری‘ مولانا ڈیزل اور اسی قسم کے دوسرے القابات کے ساتھ اپوزیشن کو نوازیں گے تو وہ بھی جواباً کیا معاف کریں گے وہ بھی تسلسل کے ساتھ مسٹر یوٹرن فتنہ خان اور ایسی الفاظ استعمال کر رہے ہیں گویا شائستگی خوبصورتی اور دانائی بالکل ہی جاتی رہی ہے.
یقینا آپ سوچیں گے کہ بھٹو صاحب نے بھی تو کسی کو آلو کہا اور کسی کو ککڑی کے پر ایک پاپولر لیڈر کی نشانی ہے مگر آپ قائد اعظم کا ماڈل کیوں پیش نہیں کر سکے جس کی ہر بات سے عظمت اور بڑا پن ظاہر ہوتا تھا۔ میں یہ بات مانتا ہوں کہ وہ ملک سے بھاگنے کا نہیں کہہ رہے بلکہ ردعمل دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ یہیں جئیں مریں گے انہیں اعتبار بخشتا ہے۔دوسری طرف نواز شریف اینڈ کمپنی کی طرف دیکھتا ہوں تو خیال ضرور آتا ہے کہ وہ اپنی عیدیں شبراتیں تک باہر مناتے ہیں اولادیں اور جائیدادیں باہر ہیں وہ اپنی ساکھ بنانے کے لئے سب کچھ اپنے ملک کے ساتھ وابستہ کیوںنہیں کرتے۔ میں نے یہ سوال بھی بارہا کیا کہ اپنے ملک سے اپنا محل بنانے کے بعد اس کا نام جاتی امرا بھارت نوازی کے سوا کیاہے۔اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ نواز شریف کا ووٹ بنک بہت زیادہ ہے خاص طور پر دینی طبقہ۔
بات تو اصل میں کردار کی ہے دھیان سارا بیان بازی اور فقرے بازی کی طرف ہے نیچے تک وہی رویہ نظر آ رہا ہے اگر رانا ثنا اللہ، شیخ رشید کو پنڈی کا شیطان کہتے ہیں تو وہ جواباً رانا صاحب کو چمگادڑ قرار دیتے ہیں۔آپ ذرا ان لوگوں کا حسن بصارت اور حسن بصیرت دیکھیں کچھ الفاظ تو لکھنے بھی مشکل ہیں۔بے حمیت اور بے حیا کے الفاظ کو وہ پانی کی روانی سے استعمال کرتے ہیں اس فن میں شہباز گل اور فیاض چوہان بھی سپر لیگ میں آتے ہیں ن لیگ سے طلال چودھری بھی۔ سب کو اپنا رویو کرنے کی ضرورت ہے اب تو کوئی شے کسی سے چھپی نہیں ایک لمحے کے لئے خان صاحب بھی سوچیں کہ صرف خط سے تو کام نہیں چلے گا کبھی ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ بھینسیں بیچنے‘ مرغیاں اور کٹے پالنے وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو یونیورسٹیاں بنانے سے لے کر کیا کیا آپ کے عزائم تھے جہاز پر آپ بیٹھ گئے آئی ایم ایف کے پاس بھی خرابی بسیار کے بعد چلے گئے۔
کچھ کام آپ نے اچھے بھی کئے جسے صحت کارڈ اگرچہ مخالفین اس کے خلاف بولتے رہے مگر میں ایسے شخص مولانا اسماعیل کو جانتا ہوں جس کے دل کے دو سٹنٹ اسی کارڈ کے باعث مفت پڑے۔ یہ بات بھی درست کہ معاملات کچھ اچھائی کی طرف جا رہے تھے مگر آپ نے ساتھ ہی ووٹنگ مشین کا اعلان کر دیا تو یہ دشمنوں کے لئے موت کا پیغام تھا آپ نے خود ہی اپنے سارے دشمنوں کو مشتعل اور متحرک کر دیا پھر سب نے مل کر کہیں ڈیل کر لی ویسے آپ اچھے ڈیلر بھی نہیں کچھ تو بلنڈر کئے سب سے بڑا بلنڈر بزدار کو پنجاب پر تھونپنا اور پھر اسے ہٹانے کے لئے پرویز الٰہی کو نامزد کر دیا۔
آخر بات یہ کہ صرف دوسروں کو ہٹا کر اقتدار میں آنا اور اس کے لئے ادارں سے زبردستی کی توقع رکھنا آپ اپنی ٹیم تشکیل دے کر منصوبہ بندی کریں اور ایک سال انتظار کریں کہ کس کارکردگی کے ساتھ ن لیگ سامنے آتی ہے مقابلہ بھی آپ کا اسی کے ساتھ اس شور شرابے میں پیپلز پارٹی پاتال میں جا چکی ہے بہرحال تہذیب اور شائستگی لوگوں کو متاثر کرتی ہے اور وہ ووٹرز ہی ہوتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے