انجمن ترقی اردو سو سال سے زیادہ قدیم ادارہ ہے۔ تقسیم کے بعد اس کے دو حصے ہوئے، ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا اور ایک حصے کو مولوی عبدالحق پاکستان لے آئے۔ اس کے تحت نہایت وقیع کتابیں شایع ہوئیں اور دو علمی جرائد بھی پابندی سے شایع ہوتے رہے۔
چند دنوں پہلے اس کے ماہنامے ’’ قومی زبان‘‘ کی مدیر ڈاکٹر یاسمین فاروقی نے جب مجھے بتایا کہ وہ اس ابن صفی نمبر مرتب کر رہی ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ابن صفی کی تخلیقی اپچ کے بارے میں لکھوں تو میں نے فوراً وعدہ کرلیا لیکن اسے بروقت پورا نہ کرسکی۔ ابن صفی میرے پسندیدہ لکھنے والے رہے ہیں۔
وہ دن مجھے یاد آئے جب کراچی کے ریگل سینما پر ان کے نئے ناول کو خریدنے والوں کی قطار لگتی تھی اور ان کے پڑھنے والے استہزائیہ نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ انھی کے ناول ثقہ لوگوں کے تکیوں کے نیچے ملتے۔
میں ان ہی دنوں ’’ عالمی ڈائجسٹ ‘‘ سے وابستہ ہوئی اور میں نے ابن صفی سے نیاز حاصل کیے اور انھوں نے ہمارے لیے ایک قسط وار ناول لکھا۔ زمانہ کس طرح پلٹتا ہے، میں نے اس وقت دیکھا جب کئی ثقہ ادیب آتے تھے اور ان کی قسط پڑھ کر چلے جاتے تھے۔ کوشش ان کی یہ ہوتی تھی کہ وہ ان کے جملوں میں کوئی نقص نکالیں۔ حالانکہ میں نے ان میں سے کسی کو ابن صفی کی نثر میں نقص نکالتے نہیں دیکھا اور ابھی چند برس پہلے میں نے ان کے کئی نالوں کے انگریزی ترجمے دیکھے۔
خود ابن صفی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ جو اپنی زندگی میں ایک عوامی لکھنے والے سمجھے جاتے تھے، ان کے بارے میں یاسر جواد نے اپنے ’’ انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم‘‘ میں لکھا ہے کہ جب عالمی شہرت یافتہ جاسوسی ناول نگار اگارتھا کرسٹی پاکستان آئیں تو انھوں نے ابن صفی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
ابن صفی مغل اعظم کے بسائے ہوئے شہر الٰہ آباد میں 1928 میں پیدا ہوئے۔ وہ زمانہ تھا جب پڑھے لکھے گھرانوں کے نوجوان گاتے ، گنگناتے پیدا ہوتے تھے۔ ابن صفی کو بچپن سے ہی شاعری اور نثر نگاری کا شوق تھا۔ 24 برس کی عمر سے انھوں نے جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے۔ ’’ دلیر مجرم ‘‘ ان کا پہلا ناول تھا جو چھپا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگیا۔ اس کی خوشبو پاکستان بھی پہنچی۔ کچھ دنوں ان کے ناول اسمگل ہوئے جس طرح ’’شمع دہلی‘‘ اور ’’ کھلونا دہلی‘‘ اسمگل ہوتے تھے، کچھ دنوں بعد وہ خود پاکستان آگئے۔ ان کے کردار کرنل فریدی، کیپٹن حمید اور عمران اس زمانے میں نوجوانوں توکیا بزرگ خواتین اور مردوں کے بھی محبوب کردار تھے۔ ابتدا میں انھوں نے فریدی کو انسپکٹر کا رینک دیا تھا۔ اپنے پہلے ناول ’’ دلیر مجرم‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’ سڑک کے دونوں طرف دور دور تک چھیول کی گھنی جھاڑیاں تھیں۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ ایک جگہ اسے بیچ سڑک پر ایک خالی تانگہ کھڑا نظر آیا۔ وہ بھی اس طرح جیسے وہ خاص طور پر راستہ روکنے کے لیے کھڑا کیا گیا ہو۔ فریدی نے کار کی رفتار دھیمی کر کے ہارن دینا شروع کیا لیکن دور و نزدیک کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ سڑک زیادہ چوڑی نہ تھی۔ لہٰذا فریدی کو کار روک کر اترنا پڑا۔ تانگہ کنارے لگا کر وہ گاڑی کی طرف لوٹ ہی رہا تھا کہ اسے دور جھاڑیوں میں ایک بھیانک چیخ سنائی دی۔ کوئی بھرائی ہوئی آواز میں چیخ رہا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بار بار چیخنے والے کا منہ دبا لیا جاتا ہو اور وہ گرفت سے نکلنے کے بعد پھر چیخنے لگتا ہو۔ فریدی نے جیب سے ریوالور نکال کر آواز کی طرف دوڑنا شروع کیا۔ وہ قد آدم جھاڑیوں سے الجھتا ہوا گرتا پڑتا جنگل میں گھسا جا رہا تھا۔ دفعتاً ایک فائر ہوا اور ایک گولی سنسناتی ہوئی اس کے کانوں کے قریب سے نکل گئی۔ وہ پھرتی کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا۔ لیٹے لیٹے رینگتا ہوا وہ ایک کھائی کی آڑ میں ہوگیا۔ اب پے درپے فائر ہونے شروع ہوگئے۔ اس نے بھی اپنا پستول خالی کرنا شروع کردیا۔ دوسری طرف سے فائر ہونے بند ہوگئے۔
شاید گولیاں چلانے والا اپنے خالی پستول میں کارتوس چڑھا رہا تھا۔ فریدی نے کھائی کی آڑ سے سر ابھارا ہی تھا کہ فائر ہوا۔ اگر وہ تیزی سے پیچھے کی طرف نہ گر گیا ہوتا تو کھوپڑی اڑ ہی گئی تھی۔ دوسری طرف سے پھر اندھا دھند فائر ہونے لگے۔ فریدی نے بھی دو تین فائر کیے اور پھر چیختا کراہتا سڑک کی طرف بھاگا۔ دوسری طرف سے اب بھی فائر ہو رہے تھے۔ لیکن وہ گرتا پڑتا بھاگا جا رہا تھا۔ کار میں پہنچتے ہی وہ تیز رفتاری سے شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔‘‘
انھوں نے ابتدا سے ہی اپنے ناولوں میں تجسس اور سریت آمیز فضا قائم رکھی۔ اس نے ان کے پڑھنے والوں کو اپنا اسیر کرلیا۔ اوپر کی چند سطریں ان کے پہلے ناول ’’دلیر مجرم‘‘ سے لی گئی ہیں جس میں بات انسپکٹر فریدی کی موت اور اس کے پوسٹ مارٹم تک جا پہنچتی ہے۔ اب لوگ حیران پریشان ہیں کہ جب انسپکٹر مارا گیا تو پھر اس جرم کا کھوج کیسے لگے گا۔
اب سے تیس چالیس برس پہلے تک ابن صفی کا نام چلتا ہوا سکہ تھا۔ ان کے کیسے کیسے نقل کرنے والے پیدا ہوئے۔ کوئی اکرم الٰہ آبادی تھا اور کوئی اے صفی لیکن کوئی بھی انھیں مات نہ دے سکا۔ وہ لوگ جو انھیں چاہتے تھے وہ ’’ اصل‘‘ اور ’’ نقل ‘‘ کا فرق جانتے تھے۔ آج آکسفورڈ اور کیمبرج کے پڑھے ہوئے ہمارے بعض رہنما جس قدر کثیف زبان استعمال کرتے ہیں، کاش انھوں نے ابن صفی کو پڑھا ہوتا جنھوں نے شائستگی سے گری ہوئی زبان کبھی استعمال نہیں کی۔ وہ تیسرے درجے کے لکھنے والے کہے جاتے تھے لیکن اب ان کے ناول انگریزی میں ترجمہ ہوتے ہیں۔
میں نے ایک تندور والے کو ان کے ناول اپنے ان پڑھ کام کرنے والوں کو پڑھ کر سناتے اور پھر ابن صفی کی چٹخارے دار زبان ان ہی ناولوں کے ذریعے سکھاتے دیکھا ہے۔ وہ موجود نہیں رہے لیکن ان کے چاہنے والے موجود ہیں۔ ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے