ہوم << جناب شیخ کے فرمودات مزید - عبداللہ طارق سہیل

جناب شیخ کے فرمودات مزید - عبداللہ طارق سہیل

بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نوپور شرما نے توہین رسالتؐ کر کے کروڑوں بھارتی مسلمانوں کا دل دکھایا، وہ ان سے معافی مانگے۔ نوپور شرما کے ریمارکس سے پورے بھارت میں آگ لگ گئی، سکیورٹی خطرے میں پڑ گئی۔

صرف معافی مانگنے سے معاملہ ختم ہو جائے گا؟ یہ تو بھارتی دستور کی بھی نفی ہے۔ ایسے جرم پر سزا دینا لازم ہے۔ لیکن چلئے، اتنا بھی غنیمت ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اعتراف کیا کہ پورے ملک میں آگ لگانے کی ذمہ دار نوپور شرما ہے جو اب بھی بی جے پی کی رہنما ہے۔ ایسی رہنما جو اب گھر سے باہر نہیں نکل سکتی در آنحالیکہ اس کے پاس بے مثال ریاستی سکیورٹی ہے اور پھر یہ اعتراف اور بھی اہم ہے کہ بھارتی سکیورٹی، ملکی سلامتی خطرے میں ہے۔

خطرے میں کس نے ڈالا؟ چین نے نہیں امریکہ نے نہیں، پاکستان نے بھی نہیں۔ بھارتی سلامتی کو ہندو توا والی بی جے پی نے خطرے میں ڈالا۔ ہندو توا کا نعرہ جب پہلی بار لگا تھا، تبھی بھارت کے کچھ دانشوروں نے خبردار کر دیا تھا کہ اس سے بھارت کی وحدت ٹوٹ جائے گی۔ بعد میں تو یہ نعرہ اور بھی خطرناک ہو گیا۔ ہندو تہذیب و تمدّن کے احیا کا یہ نعرہ غیر ہندوئوں اور بالخصوص مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے پروگرام میں بدل گیا۔ بی جے پی ایسے ’’عقلمندوں‘‘ کا مجموعہ ہے جو واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ 20 کروڑ مسلمانوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ گجرات میں کئی ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا کر بی جے پی نے سمجھ لیا کہ یہ تجربہ پورے ملک میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی عوام نے اپنی تقدیر ایسے سمجھداروں کے سپرد کر دی، اب ان کی اکثریت پچھتا رہی ہے۔ اگلے الیکشن میں بی جے پی کو اپنی حقیقی طاقت کا ٹھیک اندازہ ہو جائے گا۔

کتنے موضوعات ہوتے ہیں جن پر بات کرنے کو دل چاہتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ہر بار شیخ رشید بیچ میں آ جاتے ہیں اور ایسی بات کر دیتے ہیں کہ رسید دئیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ تازہ ویاکھیان انہوں نے یہ دیا ہے کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ اسحاق ڈار یا بل گیٹس بھی آ جائیں تو ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا لیکن مجھے اپنا ہی کالم یاد آ رہا ہے جو دو برس قبل لکھا تھا اور پھر ساتھ ہی چودھری شجاعت کا بیان بھی جو انہوں نے ڈیڑھ سال پہلے دیا تھا۔

کالم میں جو اس وقت پی ٹی آئی کے حامی اخبار میں چھپتا تھا، یہ لکھا تھا کہ عمران خاں صاحب نے معیشت کی لٹیا ایسے ڈبو کر رکھ دی ہے کہ اسحاق ڈار آ جائے، تو بھی معاملہ ٹھیک نہیں ہو سکتا اور شجاعت کا بیان یہ تھا کہ معیشت اتنی برباد ہو گئی ، حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ اب کوئی بھی سمجھدار شخص اس ملک کا وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہو گا۔ یعنی اتنا ناقابل انتظام UNGOVERNABLE ہو چکا ہے۔ شجاعت نے جب یہ بیان دیا تھا تو وہ شاید نہیں جانتے تھے کہ ’’سمجھداری‘‘ کا چیلنج قبول کرنے کا اعزاز شہباز شریف قبول کرنے والے ہیں۔

اور یہ بات تو خود شیخ صاحب نے چند ہی ہفتے پہلے برسر ٹی وی کہی تھی کہ ہم نے اتنا ملبہ بنا دیا ہے اور ایسی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں کہ اتحادیوں کی حکومت اس ملبے تلے دب جائے گی اور یہ کہ میں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہماری حکومت ختم ہو گئی ورنہ عوام نے انتخابات میں ہمارا برا حشر کر دینا تھا۔ مطلب جو اس وقت ملکی معیشت برباد کے جس گڑھے میں گری ہے، یہ گڑھا بھی آپ نے کھودا پھر معیشت کو دھکا بھی آپ نے دیا۔ سب آپ کا کیا دھرا ہے، آپ نے خود ہی مان لیا اور واقعاتی شہادتوں نے بھی ثابت کر دیا۔ اب بھی اس حکومت کو برا بھلا کہا جائے تو اسے انصاف کا نام نہیں دیا جا سکتا، ہاں تحریک انصاف کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے اور یہی اصلی والا انصاف ہے۔

شیخ صاحب کے مصرعے پر پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے گرہ لگائی ہے۔ فرمایا کہ دس ہفتوں میں ایسا کیا ہوا کہ معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ پتہ شاہ صاحب کو ہے کہ بھٹہ انہی کی جماعت، انہی کی حکومت نے بٹھایا۔ موجودہ حکومت کا یہ ’’جرم‘‘ ضرور ہے کہ وہ اس بیٹھے ہوئے بھٹّے پر بیٹھ گئی ہے۔ کسی ماہر نفسیات نے کہا تھا، خود کشی کرنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے، موجودہ حکومت کے دل گردے کو داد دینا لازم ہے۔ شیخ صاحب کی حکایت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسی بیان میں انہوں نے ایک دھمکی بھی دی۔ کسے دی۔ یہ پتہ نہیں لیکن مخاطب فوج تھی۔ فرمایا فوج فوراً انتخابات کرائے ورنہ کچھ بھی ہو جائے گا۔

اسے غلطی ھائے ’’خیالات ‘‘ مت پوچھ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کرانا فوج کا کام ہے؟۔ شیخ صاحب نہ سہی، پی ٹی آئی کا کوئی قانون دان ہی اس سوال کا جواب دے دے۔ فوج خود بھی وضاحت کر چکی ہے کہ سیاست اس کا کام نہیں نہ ہی وہ سیاسی امور میں مداخلت کرے گی۔ یہ وضاحت شیخ صاحب پر کیوں واضح نہیں ہو رہی۔ دستور آئین کی بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے۔ نہ انہوں نے کبھی پڑھا نہ باقی ماندہ عمر میں پڑھنے کا امکان ہے لیکن فوج کی وضاحت بھی نہیں مانتے، اس کی کیا وجہ ہے۔

رہی دھمکی کہ کچھ بھی ہو جائے گا، اس سے غالباً ان کی مراد یہ ہے کہ تحریک انصاف کا گلشن امید مرجھا جائے گا، وہ دھیرے دھیرے بھولی بسری کہانی بن کر رہ جائے گی اور الیکشن میں وہی جیتا کرے گا جسے عوام ووٹ دیں گے نہ کہ وہ جسے آر ٹی سسٹم جتائے گا۔ شیخ صاحب کی ’’کچھ بھی‘‘ سے مراد کچھ اور ہے تو بتا دیں۔ محکمہ انٹی کرپشن پنجاب نے بتایا ہے کہ فرح گوگی کیخلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ جن صاحبہ کو فرح گوگی کہا گیا ہے، انہوں نے کچھ روز پہلے وضاحت کی تھی کہ گوگی ان کا نام نہیں ہے، وہ فرح خاں ہیں۔ محکمہ انٹی کرپشن نے اس وضاحت کو غالباً چنداں اہمیت نہیں دی۔

بہرحال ، کیس کی تحقیقات ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک ہائوسنگ سوسائٹی بنی ۔ یہ فرح خاں کی کمپنی غوثیہ بلڈرز نے بنائی اور پلاٹ فروخت کئے جبکہ سوسائٹی میں کوئی پلاٹ موجود ہی نہیں تھا۔ یعنی پلاٹ تھے ہی نہیں لیکن فروخت کر ڈالے گئے۔ یہ تو بلین ٹری سونامی والی کرامات لگتی ہے۔ درخت لگے ہی نہیں، درخت لگانے کے پیسے وصول کر لئے گئے۔ درخواست ہے کہ اس کیس کی تفتیش ملتوی کی جائے ۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ پہلے بلین ٹری کا معمہ حل کیا جائے، اس معمے کی باری بعد میں لائی جائے۔

ویسے ماننا پڑے گا کہ تمام ’’ایماندار‘‘ ایک ہی طرح سوچتے، ایک ہی طرح کرتے ہیں۔ لاہور میں سندر کے مقام پر ایک رکشہ ڈرائیور نے ناروا چالان کئے جانے پر اپنے رکشے کو آگ لگا دی اور پھر اپنی جاں لینے کی کوشش بھی کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ ڈرائیور کی جاں بچ گئی۔، رکشہ جاں بر نہ ہو سکا۔ رکشے کے بغیر ا س محنت کش کی زندگی کیسے ہو گی؟… اس کی جان بچانے والوں نے دراصل اسے زندہ درگور کر دیا۔

پٹرول اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ رکشہ ڈرائیوروں کی آمدنی کم ہونے لگی ہے۔ ظاہر ہے، مسافروں کی تعداد کم ہو گی تو آمدنی بھی کم ہو گی۔ ایسے میں جگہ جگہ چالاں، بات بات پر چالان مرے پر سو درّے کی طرح ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت نے آمدنی بڑھانے کے لیے یہ ترکیب سوچی اور پھر نافذ کی کہ ٹریفک کا عملہ ہر روز چالان کی گنتی بڑھائے۔ ہر وارڈن کو ٹارگٹ دیا گیا کہ تم نے ایک دن میں اتنے چالان کاٹنے ہیں، کوئی رولز کی خلاف ورزی کرے نہ کرے، اس سے غرض نہیں، تم نے ہر حالت میں ’’ہدف‘‘ حاصل کرنا ہے۔ اس شیطانی عمل کو نئی حکومت نے ابھی نوٹس نہیں کیا۔ وہ انتظار کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رکشہ ڈرائیور جل مریں، پھر سوچیں گے۔

Comments

Click here to post a comment