ہوم << معاشی بدحالی اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی -سلمان عابد

معاشی بدحالی اور عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی -سلمان عابد

عمران خان حکومت کی تبدیلی کے پیچھے اس وقت کی حزب اختلاف او رآج کی حکومت کا بنیادی بیانیہ معاشی محاذ پر حکومت کی ناکامی تھا ۔ ان کے بقول ایک طرف حکومت کی حکمرانی کے نظام میں ناکامی تو دوسری طرف معاشی بدحالی او رآئی ایم ایف کے ساتھ عوام دشمنی پر مبنی حکومتی ماہدہ تھا ۔اسی کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم نے مزاحمت کی او راسی بنیاد پر بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا جسے مہنگائی مارچ کا نام دیا گیاتھا ۔آج کے حکمران طبقہ کا دعوی تھا کہ اس ملک کے معاشی مسائل کی کنجی یا روڈ میپ ان ہی کے پاس ہے ۔ عمران خان حکومت معاشی مسائل کا حل تو ایک طرف وہ اور زیادہ معاشی بدحالی سے دوچار کرے گی ۔لیکن حالت یہ ہے کہ عمران خان حکومت کی تبدیلی عملا عوام کے لیے ایک بڑے خود کش حملے سے کم نہیں ۔ جو معاشی بدحالی ، بڑھتی ہوئی مہنگائی او ربے روزگاری اس تیرہ جماعتی حکمران اتحاد کے دور میں بڑھ رہی ہے وہ ریاست، حکومت اور عوام سب کے لیے مایوس کن ہے ۔
لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ تجربہ کار، بلاصلاحیت اور بہتر روڈ میپ رکھنے والی جماعتیں او ران کے معاشی ماہرین کی کارکردگی کہاں ہے اور کیوں لوگوں کو معاشی ریلیف دینے سے قاصر ہے ۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی تو دوسری طرف وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی جانب سے عوام کو واضح پیغام کے اگلے چند ماہ تک بھی نہ تو معاشی صورتحال بدلے گی بلکہ اور زیادہ سنگین معاشی بحران سخت معاشی فیصلوں کی بنیاد پر پیدا ہوگا ۔حالیہ دو ماہ میں جس تیز رفتاری سے شہباز حکومت کی سپیڈ نے عو امی مفادات کے برعکس فیصلے کیے جن میں پٹرو ل، ڈیزل، بجلی ، گیس اور کنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ نے ایک بڑا معاشی بحران پیدا کردیا ہے ۔لوگوں کی آمدن او ر اخراجات میں جو عدم توازن پیدا ہورہا ہے اس نے اور زیادہ ملک میں غیر یقینی او رمایوسی کی کیفیت کو نمایاں کیا ہے ۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ابھی تک حکمران طبقہ عوام کے سامنے کوئی ایسا روڈ میپ نہیں پیش کرسکا جو ظاہر کرسکے یہ معاشی مشکلات کب تک رہیں گی او راس بحران سے نکلنے کا راستہ کیا ہے اور کیسے عام فرد کو معاشی ریلیف مل سکے گا۔
آج کی حکومت کا ایک بنیادی الزام عمران خان حکومت پر آئی ایم ایف سے کیا گیا ماہدہ تھا ۔ ان کے بقول یہ ماہدہ عوام دشمنی اور ریاستی مفاد کے برعکس تھا ۔منطق یہ دی جاتی تھی کہ عمران خان حکومت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے سمجھوتہ کرچکی ہے او راس کی بھاری قیمت عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔ لیکن اب جو موجودہ شہباز حکومت آئی ایم ایف سے ماہدہ کرنے جارہی ہے وہ کیسے عوامی مفادات کی ترجمانی کرسکے گا او راس میں کیا ریاستی مفاد موجود ہے ۔اگر عمران خان کا آئی ایم ایف سے ماہدہ غلظ تھا تو آج کی حکومت کا کیسے درست ہوگیا او راگر واقعی عمران خان حکومت کا ماہدہ غلط تھا تو ایسے ماہدہ کو کیونکر آگے بڑھایا جارہا ہے ۔اب یہ کہنا کہ آئی ایم ایف کے بغیر کچھ ممکن نہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر جذباتیت کی بنیاد پر معاشی آزادی او رخودمختاری سمیت آئی ایم ایف سے آزادی کے نعرے کیونکر لگائے گئے۔اب جو ماہدہ یہ نئی حکومت کرنے جارہی ہے اسے کب پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا او رکہاں اس پر اتفاق رائے کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم نے جو نئی سترہ رکنی ایک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی ہے کیا وہ آزادانہ بنیادوں پر معاشی فیصلے کرنے کی سکت رکھتی ہے او رکیا وزیر خزانہ سمیت معاشی ٹیم خود بھی آئی ایم ایف کے مقابلے میں آزاد فیصلے کرسکتی ہے تو جواب نفی میں ہوگا ۔ ہمارے معاشی حکومتی ماہرین کا ایک ہی مقصد ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد او راسی فریم ورک میں رہتے ہوئے مینجمنٹ کرنا ہے ۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے موجودہ کمزور سیاسی اور معاشی نظام کی کمزوریوں کا پورا فائدہ اٹھایا ہے ۔ اب اس کی جانب سے نئے ماہدہ کی صورت میں سخت شرائط پر مبنی ماہدہ اور " Pakistan needs to do more "یا پٹرو ل ، بجلی مزید مہنگے اور آئی ایم ایف کی نئی سخت شرائط شامل ہے ۔ 7/ 8مشترکہ جائزہ کے لیے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کا مسودہ بھی حکومت کو مل گیا ہے او راس پر عملدرآمد کرکے ہی ہم کچھ پیسے حاصل کرسکیں گے ۔حکمران طبقہ کے بقول آئی ایم ایف سے ماہدہ ہماری مرضی نہیں بلکہ مجبوری ہے او رہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ بنیادی سی بات یہ ہے کہ ہم جب ہم نے اپنی معیشت کے بحران کا حل آئی ایم ایف کے فریم ورک میں ہی بیٹھ کر تلاش کرنا ہے تو کوئی ملک میں معاشی محاذپر غیر معمولی مثبت تبدیلیوں کا امکان نہیں ہوگا ۔کیونکہ جو معاشی بحران ہے اس کا حل کوئی بھی روائتی طور طریقوں یا فرسودہ یا پہلے سے موجود ملکی یا عالمی مالیاتی فریم ورک میں تلاش کرنا خود کو خوش فہمی کی سیاست سے جوڑنا ہوگا ۔ جو اس وقت غیر معمولی صورتحال ہے اس کے لیے اقدامات بھی غیر معمولی یعنی Out of Box جاکر کرنے ہونگے ۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر پچاس روپے تک لیوی ٹیکس ، پٹرو ل کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنا ، قیمتوں پر حکومتی کنٹرول کو ختم کرنا ، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں برابر اضافہ کرنا یا حکومت کا ٹیکس نیٹ بڑھانا یا سپر ٹیکس کا نفاذ ان سب کا اطلاق عام آدمی پر ہی ہوگا ۔ جس پر ٹیکس لگے گا تو وہ خود تو نہیں دے گا بلکہ اس کو عام آدمی پر بوجھ ڈالے گا۔لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں جو مہنگائی کا ریلا ہے اس نے خاص طو رپر تنخواہ دار طبقہ یا روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے پر براہ راست اثر ڈالا ہے ۔ پٹرول ، ڈیزل ، گیس او ربجلی کی قیمتوں میں براہ راست اضافہ کا تعلق عملا تمام اشیا پر ہوگا اور لوگوں سے جو جبری ٹیکس Indirect taxes کے نام پر لیا جارہا ہے وہ خود بھی سوالیہ نشان ہے او رلوگ سوچتے ہیں کہ کیا وجہ ہے جن پر ٹیکس لگانا چاہیے ان سے حکمران سیاسی سمجھوتے یا کمزوری جبکہ عام آدمی پر بوجھ ڈال کر ان ہی سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کی خاطر ایثار ، قربانی او رکفایت شعاری سمیت حکومت کی مد دمیں آگے بڑھیں ۔ لیکن خود ریاستی و حکومتی نظام اپنی عیاشیوں اور خوشنما حکومتی نظام کے بارے میں کچھ قربان کرنے کے لیے تیار نہیں جو ریاستی ، وحکومتی نظام میں ایک بڑی خلیج یا تعلق کو کمزو رکرنا یا بداعتمادی کا ماحول پیدا کررہا ہے ۔
مسئلہ محض کمزور یا غریب آدمی کا نہیں اس ملک میں اب سفید پوش یا نوکری پیشہ طبقہ یا چھوٹے کاروباری طبقہ کی مایوسی کا بڑھنا خود ریاستی سطح کے نظام کے لیے چیلنج ہے ۔ حکومت کی معاشی ترقی کا روڈ میپ دیکھیں تو انہوں نے اتوار والے دن پورے ملک کی مارکیٹ کو ہی بند کردیا جن میں چھوٹے کاروبار یا گلی محلے کی کریانہ کی دوکانیں بھی شامل تھیں ۔ یعنی حکمران طبقہ کے پاس معاشی مسائل سے نمٹنے کا علاج بھی عملا ہم کو مصنوعی نظر آتا ہے او رلگتا ہے کہ بس وقت گزاری کا ایجنڈا ہے او رکوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ۔اصل میں مہنگائی کا بڑھنا ایک فطری امر ہوتا ہے ۔ اس کا علاج جہاں مہنگائی کا بڑھنا ہے وہیں لوگوں کی آمدن میں اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن جس معاشی نظام میں آمدن و اخراجات میں عوم تواز ن ہوگا تو اس سے معاشی بحران کی سنگینی اور زیادہ بڑھ جائے گی ۔ریاستی نظام کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم پوری ریاستی نظام کی ہی نج کاری کردی ہے او رلوگوں کو پبلک سیکٹر کے مقابلے میں نجی شعبہ کی تحویل میں دے دیا ہے جو عملا عدم ریگولیٹ پالیسی کی وجہ سے اور زیادہ لوگوں کی مشکلات کو بڑھاتا ہے ۔مسئلہ حکومت یا حزب اختلاف کا نہیں او رنہ ہی ہمارے معاشی ماہرین کا بڑا مسئلہ مستقل بنیادوں پر معاشی پالیسیوں کے بارے کم سوچ وفکر یا عملی غیر معمولی اقدامات سے گریز اور معاشی جیسے اہم شعبہ پر بھی حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان سیاسی محاز آرائی او رمعاشی امور پر سیاست نے ماحول کو اور الودہ کردیا ہے ۔ایسے میں لوگ اور بالخصوص کمزو ر یا سفید پوش طبقات کیا کریں اور کدھر جائیں او رکون ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا ۔ عام سے گھروں میں بغیر اے سی او رکولر کے پندرہ پندرہ ہزار کے بل ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں کو معاشی خوشحالی کی منزل کمزور نظر آتی ہے ۔ایسے میں حکمران طبقہ کی جانب سے کم چائے پینے یا گھر سے باہر نہ نکلنے ، پیدل چلنے اور کفایت شعاری پر مبنی اہم مشورے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سبب بنتے ہیں ۔

Comments

Click here to post a comment