ہوم << احتساب کے بغیر جمہوریت اور سیاست کا بیانیہ -سلمان عابد

احتساب کے بغیر جمہوریت اور سیاست کا بیانیہ -سلمان عابد

پاکستان میں اصولی طور پر سیاست او رجمہوریت کی سیاسی بقا کے لیے ہمیں احتساب کے نظام کو ختم کرکے ترقی کے عمل میں شریک ہونا پڑے گا۔ کیونکہ یہ ہی سوچ او رفکر بنیادی طور پر ہماری ریاست، حکومت او راداروں میں موجود فیصلہ ساز یا طاقت ور قوتوں میں پائی جاتی ہے ۔ ان کے بقول اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں کرپشن جیسے معاملات پر ذیادہ سنجیدگی ، مزاحمت یا شور کرنے کی بجائے اسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت کے طور پر سمجھ لینا چاہیے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار آصف علی زرداری کے بقول ہمیں احتساب یا معیشت میں سے کسی ایک کے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ ان کے بقول اگر احتساب کو بنیاد بنایا گیا تو یہاں معیشت کی ترقی کا عمل پیچھے چلا جائے گا ۔ مسلم لیگ ن کے وزیر احسن اقبال کے بقول دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو کرپشن کے باوجود ترقی کرتے ہیں ۔ یعنی ان کے بقول کرپشن کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہمیں بس ترقی کے نقطہ پر زور دینا ہوگا ۔یہ بیانیہ محض ان دوافراد کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک بڑا طاقت ور طبقہ اسی سوچ او رفکر کی بنیاد پر اس بیانیہ کو فروغ دیتا ہے کہ کرپشن یا احتساب کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔

پاکستان میں مجموعی طور پر طاقت ور طبقہ کا ایک بنیادی مطالبہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے خاتمہ کا بھی ہے ۔ اس نقطہ پر یہ سب متفق ہیں جن میں سیاست دان ، بیوروکریٹ اور صنعت کار شامل ہیں کہ نیب معاشی ترقی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہے ۔سابق وزیر اعظم خاقان علی عباسی کے بقول ہم سب کو مل کر نیب کا خاتمہ کرنا ہوگا وگرنہ دوسری صورت میں معیشت سمیت سیاست او رجمہوریت کا مستقبل بھی یہاں کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتا ۔بنیادی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نیب کے ادارے کا مقصد سیاسی مخالفین کو ڈرانا ، بلیک میل کرنا ، ان کی وفاداری کو بدلنا او ران کو ناجائز مقدمات میں الجھانا ہے ۔اس دلیل کو تھوڑی دیر کے مان لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان اداروں کا سیاسی استعمال کون کرتا ہے ۔ کیا محض اسٹیبلیشمنٹ یا ہر دور کی سیاسی حکومت بھی اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے ۔اصل میں جب ہماری سیاسی کمٹمنٹ ہی احتساب کو یقینی بنانے کی نہیں ہے تو پھر محض پالیسی سازی ، قانون سازی یا احتساب کے لیے اداروں کی تشکیل او ران پر اربوں روپوں کے اخراجات کیا بوجھ کیوں اٹھایا جاتا ہے ۔

کرپشن یا بدعنوانی کو جب ہم نے سماجی او رسیاسی طور پر قبول کرلیا ہے تو پھر اس عمل میں قانونی حیثیت بھی دے دیں تاکہ پورے معاشرے کو ہی اس دلدل میں دکھیل دیا جائے ۔بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ منطق کیسے تسلیم کرلی جائے کہ کرپشن کو بنیاد بنا کر ترقی کی جاسکتی ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اربوں روپوں کی کرپشن او رکرپٹ لوگوں کا قانون کی گرفت سے بچ جانے کے باوجود ترقی کا عمل ہم کیوں نہیں دیکھ سکے ۔یہ منطق ہی قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کہ معیشت اور کرپشن کا باہمی تعلق ہے اگر اس کو بنیاد بنالیا جائے تو پھر اس کا بڑا سیاسی و مالی فائدہ ان ہی طاقت ور طبقات کو ہوگا جو ریاستی ، حکومتی دولت کو اپنے حق میں کرکے قومی خرانے سمیت ملک کی معیشت یا سیاست دونوں کا بیڑا غرق کریں گے ۔لوگوں کو یاد ہوگا پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ ن 2006میں میثاق جمہوریت میں اسی نقطہ پر بڑا زور دیا تھا کہ ہم اقتدارمیں آکر سب سے پہلے نیب کا خاتمہ کریں گے او راس کے بعد باہمی مشاورت سے نیب کے مقابلے میں ایک آزاد ، شفاف او رخود مختار احتساب کا نیا ادارہ بنائیں گے ۔ لیکن وہ ایسا کر نہیں سکے او رکرنا بھی نہیں چاہتے تھے کیونکہ جب سیاست کی بنیاد ہی کرپشن اور عملا بندعنوانی پر کھڑی ہو تو پھر احتساب کا موثر نظام کیسے ممکن ہوسکے گا ۔

ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اس ملک میں جب بھی آپ احتساب کی بات کریں تو کہیں سیاست ، جمہوریت ، قانون ، سیکورٹی ، آزادی اظہار، کاروبار اور معیشت کی ترقی سب کو خطرہ پڑجاتا ہے ۔ ان طبقا ت کے بقول احتساب یا کرپشن کا نعرہ ہی نظاموں کی ترقی او رجمہوریت کے خلاف ہوتا ہے ۔ یعنی ہم ہر ایک عمل میں سے ایک سازشی تھیور ی کو تلاش کرتے ہیں او راسی پر بنیانیہ بنا کر احتساب کے نظام کو متنازعہ بنا کر پیش کرکے اپنے ذاتی و خاندانی مفادات کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے ۔ جو لوگ بھی اس ملک میں شفافیت ، جوابدہی یا احتساب کی بات کرتے ہیں تو ان کو عملا سیاست ، جمہوریت کا مخالف او راسٹیبلیشمنٹ کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے ۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس ملک میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی مجموعی اکثریت بھی ان ہی طاقت ور طبقات کی آلہ کار بن کر کرپشن او راحتساب کے نام پر ہمیں درس دینے میں ہی پیش پیش ہوتے ہیں کہ جمہوری عمل کو چلنے دیا جائے او ربلاوجہ کرپشن یا احتساب کو ترجیحی ایجنڈا نہ سمجھا جائے ۔ دراصل ان ہی میں سے ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو خود کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کے ساتھ ملک کر خود بھی اس کھیل میں اپنے ہاتھ رنگتے ہیں ۔

حال ہی میں موجودہ 13جماعتی حکومتی اتحاد نے نیب میں کچھ اہم ترامیم کی ہیں جو بڑی دلچسپ ہیں ۔ یعنی جن لوگوں پر الزامات تھے ان ہی طاقت ور حکمران طبقات نے اقتدار میں آنے کے بعد خود ہی کو این ار او دے دیا۔ یعنی ملزم ہی طے کر رہے ہیں کہ ہمارے جرائم کے خلاف کیا قانون سازی ہوگی او رکیسے ہم خود ہی اپنے آپ کو قانونی تحفظ دے سکتے ہیں ۔ جو ترامیم پیش کی گئی ہیں ان جائزہ لیں تو کھیل کی اصل کہانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہم کیوں احتساب کے مخالف ہیں ۔اول تمام ترامیم یکم جنوری 1985سے لاگو ہونگی اس کا فائدہ تمام ملزمان کو ہی ہوگا۔ دوئم اہل خانہ کے اثاثے ملزم کے اثاثے تصور نہیں ہونگے )اس کو سمجھنا آسان ہے کہ یہ فائدہ کس کو دینے کے لیے کیا گیا ہے ۔( سوئم اثاثوں کو ناجائز ثابت کرنے کی ذمہ داری نیب پر ہوگی او رملزم اس معاملے میں کسی بھی سطح پر جوابدہ نہیں ہوگا۔ چہارم ملزم کی جائداد کی قیمت مارکیٹ کی بجائے ڈی سی ریٹ پر ہوگی یعنی اربوں کی جائداد کڑوروں میں ظاہر کرو او رنکل لو ۔ پنجم دوران کیس ملزم متنازعہ جائداد بیچ سکتا ہے یعنی مدا غائب کرنے کی اجازت۔ ششم کیس ثابت نہ ہوتو نیب افسر کو پانچ برس سزا یعنی کوئی طاقت ور کا احتساب کرنے کی جرات ہی نہ کرے ۔ہفتم ریگولیٹڑز اور بیوروکریسی کے غلط فیصلوں کو مکمل تحفظ،ہشتم بیرون ملک سے آیا ثبوت قابل قبول نہیں ہوگا۔نہم ملزموں کی اثاثوں کی منی ٹریل دینے کی ذمہ داری بھی ختم ،دہم اثاثوں کی تعریف میں تبدیلی اور نیب کو صدر کی بجائے وزرات داخلہ کے ماتحت کرنا اور بے نامی دار کی تعریف میں تبدیلی کی گئی ہے ۔ تحفظ بھی عملی طو رپر حکومت نے ان ہی لوگوں کو دیا ہے جو وہ خود ہیں او رموجودہ حکومت میں اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں ۔ اس پورے عمل سے نیب کی خودمختاری کو عملی طور پر ختم کردیا گیا ہے ۔اسی طرح 90روزہ ریمانڈ کو 14روز تک محدود کرنا ،وفاقی و صوبائی کابینہ ، ایکنک او ردیگر ریگولٹری باڈیزکے فیصلوں پر نیب کے دائرہ اختیار کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔

یہ ساری حالیہ ترامیم ظاہر کرتی ہیں کہ اس ملک کے طاقت ور طقبات بشمول حکمران طبقات کس حد تک ملک میں شفافیت او راحتساب کے نظام کے حامی ہیں یا یہ ان کی اہم ترجیحات کا حصہ ہیں ۔اگر واقعی ان ہی ترامیم یا طرز عمل کے ساتھ ہم نے نیب یا ایف آئی اے سمیت دیگر احتساب کے اداروں کو چلانا ہے تو خدارا ان کو اداروں کو بند کریں اور قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے کی بجائے کرپشن پر مبنی سیاست اور احتساب کے بغیر سیاسی نظام کی حمایت میں تحریک چلائیں ۔ وہ سیاست دان سمیت سمیت طاقت ور طبقات جنہوں نے اس ملک کو ترقی دینی تھی اور معاشی طور پر اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا تھا وہی اگر کرپشن او ربدعنوانی کی سیاست کے ترجمان بن جائیں او راپنی سیاسی تقریروں ، واعظوں ، لفظوں کی جگالی او رانتخابی منشور میں احتساب کو یقینی بنانا او رکرپشن کا خاتمہ یا منصفانہ معاشرے کی تشکیل یا شفافیت پر مبنی نظام جیسے نعروں کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلنا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ اس لیے جو لوگ بھی اس فرسودہ نظام ، ڈھانچوں او رطاقت کے اہم مراکز یاسیاسی قیادتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک میں احتساب کے نظام کو مضبوط بنائیں گے ، محض ایک جذباتی او رجھوٹ پر مبنی نعرہ ہے ۔

Comments

Click here to post a comment