احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک خوبصورت شعرہے دشمن بھی جو چاہے تو میری چھاؤں میں بیٹھے میں ایک گھنا پیڑ سرِ راہ گزر ہوں۔۔۔! یہ شعر ہماری دھرتی کے گھنے پیڑوں کی خنک منظر نامے سے کشید کیا گیا ہے۔
دھریک ،نیم ،بکائن، املتاس ،شرینہہ ، بوہڑ سبحان اللہ کیسے کیسے مہربان گھنے پیڑ مری دھرتی کا اثاثہ ہیں۔ یہ کون لوگ ہیںجو نقالی کرنے کی بدبختی میں اپنے چھتنار فراموش کرکے اجنبی نگاہوں والا پام جیسا بے سایہ شجر ہم پر مسلط کررہے ہیںہم بنیادی طور پر دوسروں کی نقل کرنے والے لوگ ہیں۔ ایک کہاوت بہت سنتے تھے کہ دوسرے کا رنگ لال دیکھ کر اپنا چپیڑ مار کر لال کرلیں ہم اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم اپنی شناخت پر شرمندہ ہیں جو چیزیں ہمیں اللہ تعالی نے عطا کی ہیں ہم اسے فخر سے ڈس اون کرتے ہیں اور دوسروں جیسا بننے کی تگ ودو میں ادھار کے انداز واطوار اپناتے ہیں۔چلیے اگر دوسروں کے انداز و اطوار اپنا کر کچھ فائدہ ہوتا ہو تو بات بھی ہے مگر ہم نقالی کی اس خواہشں میں فائدہ چھوڑ کر خسارے کا سودا کرنے والے لوگ ہیں ۔ چند روز پہلے خیابان امین جانا پڑا۔ لاہور کی یہ ہاؤسنگ سوسائٹی ویلنشیا ٹاؤن کے پہلو میں آباد ہے۔
اس کا کچھ حصہ رنگ روڈ کی دوسری طرف ہے ۔جہاں سوسائٹی کا دفتر واقع ہے۔ دوپہر چڑھ رہی تھی ،سامنے سڑک کے ساتھ ساتھ لیے چھوٹی سی ایک نہر نما ساتھ ساتھ چلتی ہے۔اس کے گرد دونوں اطراف پا م کے بے سایہ درخت لگے تھے جو اس کڑی دوپہر میں ایک خالی خالی ڈنڈے کی طرح کھڑے منظر کو بدصورت بنارہے تھے۔دفعتاً خیال آیا کہ پام کے اجنبی درختوں کی جگہ اگر ہمارے مقامی چھتنار درختوں کی قطار یں ہوتیں تو دھوپ میں جلتا بلتا منظر نامہ کس قدر سرسبز اور خنک آمیز ہوتا ۔نقالی کی اس سوچ نے ہم پر بڑی قیامت ڈھائی ہے۔ ہم نے اپنی دھرتی کے دیسی چھتنار درختوں کو فراموش کر دیا ،ان کی جگہ تمام جدید ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سڑکوں کی کنارے پام کے بے سایہ بے ثمر درخت کھڑے کردیے۔
یہ ظلم ہم پہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے احساس کمتری کی مارے ہوئے ڈیزائینر ز نے کیا۔ پام کے درخت کا خیال کہاں سے آیا؟گمان یہی ہے کہ امیر خلیجی ممالک کے مناظر کو نقل کرکے ان جدید ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں امیرانہ طرز رہائش کے امیج کو بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سیدھی سادھی مارکیٹنگ گیم ہے۔ گاہکوں کو مائل کرنے کے لیے کہ آپ اپنے لاکھوں روپے ایک ماڈرن اور نئے انداز کے حامل طرز زندگی کو حاصل کرنے پر لگارہے ہیں ۔لاہور کے اطراف کے سب چھوٹے بڑے شہروں کی ایسی جدید آبادیوں میں مقامی سایہ دار درخت کم کم دکھائی دیں گے ۔قدیم درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر بنے بنائے پام کے پلاسٹک نما درخت سڑکوں کے کنارے کھڑے کردئیے جاتے ہیں۔
ان درختوں کی شاخیں نہیں ایک ہی طرز کے بڑے بڑے پتے فوارے کی شکل میں تنے کے سرے سے پھیلے ہوتے ہیں جس سے تمام درخت ایک ہی شبیہہ کے دکھائی دیتے ہیں۔اس سے مگر کیا فرق پڑتا ہے اگر یہ درخت نہ سایہ دیتے ہیں نہ پھل ؟ خلیجی ملکوں میں پام کے درخت وہاں کے موسم کی مجبوری ہیں۔ یہ بنیادی طور پر صحرائی ملک ہیں،یہاں سبزہ بہت کم ہیں تیز دھوپ کی شدت سے بچانے کے لیے سایہ دار درخت نایاب ہیں۔ جب کہ ہمارا ملک تو موسموں کی جنت ہے ۔یہاں ایک سے ایک بڑھ کر سایہ دار اور پھل دار درخت پائے جاتے ہیں۔ قدرت نے بڑی فیاضی سے ہمارے ملک کو ہر طرح کے موسموں کی خوبصورتی سے نوازا ہے۔پنجاب کی بات کریں تو پنجاب میں دھریک، نیم، آم، بوہڑ ،شرینہہ، جامن، املتاس ،بکائن جیسے مہربان درخت اللہ نے ہمیں عطا کیے ہیں ۔یہ محض درخت نہیں دعاؤں کی طرح چھاؤں بانٹتے مہربان بزرگ ہیں۔
لاہور میں 71فیصد درختوں سے ڈھکا ہوا رقبہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے جنون نے خالی کردیا ہے یعنی شہرلاہور اپنے سیکڑوں چھاؤں بانٹتے قدیم دیسی درختوں سے محروم کرگیا۔ اور اس پر ظلم یہ ہوا کے ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے درختوں کی جگہ پلاسٹک نما پام کے درخت سڑکوں کے کنارے کھڑے کردیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 71 فیصد رقبہ جو درختوں سے خالی ہوا ،اس کے ریپلیسمنٹ نہیں ہو سکی.یہ بات کسی ماحولیات کے سائنس دان کے سامنے رکھیں تو وہ اس سے سنگین جرم قرار دے گا۔ میرے نزدیک بھی یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
اس سلسلے کو روک دینا چاہیے۔یہ پام کا درخت ہم پر کس لیے مسلط کیا گیا؟جودھوپ میں ایک اجنبی کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ اس کے برعکس ہماری دھرتی کے سایہ دار درخت ہمدرد دوست کی طرح شناسائی نبھاتے ہیں ان کی شاخوں سے لپٹی چھاؤں راہ سے گزرنے والوں کو گلے سے لگاتی اور محبت سے تھپتھپاتی ہے۔ میرے ملک کے شہر شہر گاؤں اور قصبوں میں ایسی بے شمار ٹھنڈی سڑکیں موجود ہیں جن کے دورویہ کھرے اشجار باہم مل کر دھوپ میں ایک چھتری تان لیتے ہیں۔لاہور کی ایک ٹھنڈی سڑک ڈیوس روڈ کی بغل سے سیدھی نہر پر دھرم پورہ پل کے پاس جانکلتی ہے ایک طرف میو گارڈن اور دوسری طرف ایچی سن کی دیوار ہے یہ سڑک قدیم چھتنار درختوں سے سجی ہے ۔
یہ ہمارے دیسی درختوں کا جادو ہے کہ ٹریفک کے اژدحام سے چھلکتی ڈیوس روڈ سے ٹھنڈی سڑک کی طرف مڑیں تو ایک میٹھی خنکی کا جھونکا استقبال کرتا ہے۔ درختوں کے قتل عام سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی میں ہمارے ہاں گرم موسم مزید شدت اختیار کر چکے ہیں ۔ایسے میں قانون سازی ہونی چاہیے اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پام کے درخت لگانے پر فی الفور پابندی لگا دینی چاہیئے۔قدرت نے میری دھرتی کو ایک سے ایک سایہ دار اور پھلدار شجر عطا کیے ہیں۔ خدارا ہمارے ماحول کو پام کے بے سایہ اجنبی درخت سے بچائیں !!
تبصرہ لکھیے