ہوم << اسوہ ابراہیمی اور زندگی کی شاہراہ - طیبہ سلیم

اسوہ ابراہیمی اور زندگی کی شاہراہ - طیبہ سلیم

دنیا میں بہت سی برگزیدہ ہستی گزری ہیں جنہوں نے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنی موجودگی کے نشانات ثبت کر دیے ہیں . تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جتنے لوگوں نے بھی قربانیاں دیں وہ امر ہو گئے ان میں ایک برگزیدہ ہستی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنہوں نے کائنات میں غوروفکر کی عادت سےاللہ کو پا لیا اس لئے قرآن میں جابجا غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے رب کو پہچان لیا تو اس کی راہ میں ہر قربانی دے دیں اپنی جان مال اولاد عزت سب کچھ دان کر دیا۔حتی کہ خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی ہدایت پر ذبح کرنے کے لئے تیار ہوگئے اللہ تعالی کو ان کی فرما برداری کی یہ ادا اتنی پسند آئیں کہ بہت سی دنیا تک اس یاد کے طور پر جانور کی قربانی کی جاتی ہے جو کہ سنت ابراہیمی کے نام سے یاد کی جاتی ہے ۔اللہ کی محبت کے آگے انہوں نے کسی رشتے کو اہمیت نہیں دی ۔حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو بے آب و گیان صحرا میں اکیلا چھوڑ دیا پوچھا گیا کہ کس کے آسرے پر چھوڑ کر جا رہے ہیں پوچھا گیا کہ کس کے آسرے پر چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟

تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔حضرت ہاجرہ علیہ السلام نےیہ سن کر کہا تو پھر ٹھیک ہے حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے بھی فرمانبرداری و وفا کا اعلی نمونہ پیش کیا کہ اس رب پر اتنا بھروسہ کہ اسکے لئے تپتے صحرا میں بھی رہنا گوارا کر لیا ۔اللہ نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام کا کوہ صفا کی پہاڑی پر پانی کی تلاش میں چکر لگانے کو ایک عبادت کا درجہ بنا دیا حج کا رکن اس کوہ صفا کی سعی کے بغیر نامکمل رہتا ہے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لوٹا نے والوں کو اللہ رہتی دنیا تک زندہ رکھتا ہے.

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہر ادا کو اللہ نے محفوظ کر لیا اور اس وقت کو یاد کرو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادوں کو بلند فرما رہے تھے البقرہ ۔۱۲۷ اور جب بیت اللہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو زبان مبارک میں بس یہی دعا تھی کہ اے میرے پروردگار ہم سے اس خدمت کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرما ۔اس دعا ہی کی برکت سے اللہ تعالی نے رہتی دنیا تک اس گھر کو عبادت کا مرکز بنا دیا جہاں پوری دنیا سے لوگ عبادت کرنے آتے ہیں ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوۓ یہ سبق ملا کہ دنیا میں کتنا بڑا بھی کام کر لیں اس کے پیچھے سے اور صرف اللہ تعالی کا فضل و کرم ہوتا ہےاس لیے انسان کو اپنی بڑائی بیان نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ تعالی کی بڑائی بیان کرنی چاہیے کیونکہ وہ ہی تعریف کے لائق ہے ۔کعبہ کی تعمیر کے دوران آپ کے پاؤں کے نشانات تک محفوظ کرکے اس کو مقام ابراہیم کا نام دے دیا یہاں دو نفل پڑھنا حج عمرے کا حصہ قرار دے دیا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک بہترین صفت حنیفیت ہے جس کا قرآن میں ذکر آیا ہے یعنی یکسو ہو کر اللہ کی راہ میں قربانی دیتے گیے۔ قرآن میں ارشاد ہے میری قربانی میراجینا میرا مرنا اللہ رب العزت کے لئے ہے ۔

حضرت ابراہیم کی زندگی ہمارے لئے کام نمونہ پیش کرتا ہے کے حقیقی محبت کا حقدار اور محور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے اور اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اسی سبق کو یاد کرنے کے لیے ہم ہر سال عید الاضحیٰ مناتے ہیں حضرت ابراہیم کے اسوۓ کی پیروی کر کے ہیں ہم اللہ رب العزت کو راضی کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نے کیا اور ہم اپنی اولاد کے لیے اللہ کو ناراض کر دیتے ہیں ہماری وفاداری اور محبت کا سب سے زیادہ حق اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے.

یہی محبت ہمیں دنیا اور آخرت میں سرخرو کرنے کا باعث بنے گی ہماری اولاد سے ہماری سچی محبت کا ثبوت یہ ہوگا کہ ہم انہیں اپنے دین سے محبت کرنا سکھا دیں یہی ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنیں گے ۔