مامون الرشید کے دور میں معتزلی عقائد گویا سرکاری مذہب کا درجہ پا چکے تھے اور اُن سے اختلاف کرنے والی ہر آواز کو بُری طرح دبا دیا جاتا تھا۔ تب عقیدۂ اعتزال اور اُس کے فتنہ خلقِ قرآن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والوں میں سب سے نمایاں نام تھا امام احمد بن حنبل کا، جن کا وسطِ ایشیا سے ایک واضح اور بہت گہرا تعلق ہے۔
امام احمد کے آبا
دراصل امام احمد کے والد محمد بن حنبل اُس زمانے میں مرو منتقل ہوئے تھے، جب مسلمان افواج وسطِ ایشیا فتح کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ مرو وسطِ ایشیا میں جہاد کا مرکز تھا، یہیں سے ہر سال ماورا النہر کے لیے مہمات روانہ ہوتیں اور موسمِ سرما سے پہلے تمام لشکر واپس مرو آ جاتیں۔ امام احمد کے والد بھی انہی مہمات کے سپاہیوں میں سے ایک تھے۔
تاریخ کے مطابق امام احمد کے دادا حنبل بن حلال اُموی دور ہی میں خراسان آ گئے تھے اور یہاں سرخس (Sarakhs) کے گورنر بنائے گئے تھے۔ یہ شہر آجکل ایران اور ترکمنستان کی سرحد پر واقع ہے اور ایرانی صوبہ خراسان کا حصہ ہے۔
بہرحال، جب ابو جعفر المنصور نے ایک نئے دار الحکومت کی بنیاد رکھی، تب آپ کے والد مرو سے نئے بغداد منتقل ہوئے اور یہاں پہنچتے ہی اُن کا انتقال ہو گیا۔ کچھ روایات کے مطابق شِیر خوار امام احمد بن حنبل اس سفرِ ہجرت میں اُن کے ساتھ تھے لیکن چند مؤرخین کا کہنا ہے کہ امام احمد بن حنبل مرو میں نہیں بلکہ اِس ہجرت کے بعد بغداد میں پیدا ہوئے تھے۔
امام احمد کے علمی سفر
امام احمد بن حنبل نے امام شافعی سمیت کئی اہم علمی شخصیات سے فیض حاصل کیا اور ایک عظیم محدّت بن کر ابھرے۔ آپ کی تالیف کردہ حدیث کی کتاب کا نام 'مسند' ہے اور جو عام طور پر مسندِ احمد کہلاتی ہے اور احادیث کے بہترین مجموعوں میں سے ایک ہے۔
بغداد میں آپ نے کم عمری میں ہی قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے بعد تحریر و کتابت میں مشغول ہوئے۔ آپ نے سب سے پہلے امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کے درس میں شرکت کرنا شروع کی اور ابتدا ہی سے اپنی توجہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر رکھی بلکہ آپ نے علمِ حدیث کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اس کے لیے آپ نے کئی سفر بھی کیے، جن میں حجاز کے پانچ سفر بھی شامل تھے۔ آپ نے حدیثوں کے لیے یمن، شام، مصر، سے مراکش اور مشرق میں مرو تک کے سفر کیے۔
فتنۂ خلقِ قرآن
یہ وہ زمانہ تھا جب فتنہ خلقِ قرآن ابھرا۔ یہ فتنہ ایک ایسے فرقے نے پیدا کیا تھا جسے معتزلہ کہتے ہیں۔ یہ عقلیت پسند تھے اور اُن کے کئی عجیب و غریب عقائد تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن مجید مخلوق ہے۔
مامون الرشید دربار میں علما کے مناظرے کرواتا رہتا تھا اور اِس دوران نجانے کب خود بھی معتزلہ کا قائل ہو گیا۔ پھر جب ایک ہاتھ میں اختیار اور قوت ہو اور دوسرے میں تلوار بھی، تو معاملہ صرف علمی طور پر قائل کرنے پر نہیں رُکتا۔ مامون نے بھی یہی کیا، علما کو قائل کرنے کی کوشش میں اتنا آگے نکل گیا کہ جبر کا راستہ اختیار کر لیا۔ قید و بند، تشدد اور جلا وطن کرنے جیسے بھیانک طریقے آزمائے۔ کئی علما مجبور ہو گئے لیکن سخت ترین حالات میں بھی امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نیشا پوری ڈٹے رہے۔ انہیں سخت ترین اذیتیں دی گئیں، یہاں تک کہ محمد بن نوح کا انتقال ہو گیا اور انہی دنوں میں خود مامون بھی موجودہ ترکی کے شہر طرسوس میں چل بسا۔ یہ سن 833ء تھا۔
دورِ ابتلا
مامون کے بعد اُس کا بھائی ابو اسحٰق معتصم باللہ کے نام سے نیا خلیفہ بنا۔ ہارون الرشید نے وصیت تین بیٹوں کے لیے کی تھی: امین الرشید، مامون الرشید اور موتمن الرشید، لیکن ہارون کا ایک اور بیٹا بھی تھا جس کا نام محمد بن ہارون تھا، جو سب سے چھوٹا تھا اور بعد میں معتصم کے نام سے مشہور ہوا۔ پڑھا لکھا نہیں تھا، صرف جنگ و جدل کا ماہر تھا۔ اس لیے تاریخ میں اس زیادہ تر کارنامے جنگی نوعیت ہی کے ہیں۔ لیکن قسمت تو دیکھیے کہ جس کی ہارون نے وصیت ہی نہیں کی تھی، وہ مامون کے بعد عباسی سلطنت کا مختارِ کُل بن بیٹھا اور مذہبی عقائد کے معاملے میں مامون سے بھی زیادہ سخت نکلا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا، اس لیے مامون نے جو اُس کے دماغ میں ٹھونس دیا، اُس پر پوری شدّت کے ساتھ عمل پیرا ہو گیا اور یوں امام احمد بن حنبل کا دورِ ابتلا شروع ہو گیا۔
معتصم کے دور کے ابتدائی ڈیڑھ سال تک امام احمد کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں کئی مرتبہ کوڑے تک لگوائے گئے لیکن امام کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی، یہاں تک کہ مجبوراً انہیں رہا کر دیا گیا۔
پھر واثق باللہ کا دور آیا، جس میں امام احمد بن حنبل کے لیے بڑی آزمائشیں تھیں۔ کوڑے اور جسمانی تکالیف تو نہیں دی گئیں لیکن نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد رہیں۔ آج کی زبان میں کہیں تو امام احمد کو نظر بند کر دیا گیا۔ آپ کے بغداد میں داخلے پر بھی پابندی تھی۔ بالآخر 847ء میں واثق بھی مر گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک سیاہ دور کا خاتمہ ہو گیا۔
اندازہ لگائیے کہ بادشاہت کا نظام کس طرح کام کرتا ہے۔ مامون اور معتصم کے دور میں معتزلہ کی اندھا دھند حمایت کی گئی اور متوکل کے دور میں عالم یہ تھا کہ مترجمین میں سے جس کا کام عقلیت پسندی کے قریب بھی پھٹکتا، اُسے قید خانے میں ڈال دیا جاتا۔
ایک نئی آزمائش
متوکل علی اللہ کے دَور میں تمام پابندیوں کا خاتمہ ہو گیا، معتزلہ عقائد کی سرپرستی روک دی گئی اور تمام علما کو قید و بند سے آزاد کر دیا گیا۔ لیکن اب آزمائش ایک مختلف رُوپ دھار کر امام احمد کے سامنے کھڑی تھی۔ پہلے جسمانی تشدد کے ذریعے برداشت کا امتحان لیا گیا تھا تو اب نفس کی آزمائش کا دَور شروع ہو چکا تھا۔ متوکل کے دور میں آپ کے قدموں میں دولت کے انبار رکھ دیے گئے لیکن امام اس آزمائش میں بھی سرخرو ہو کر نکلے۔
حق کا فیصلہ کرنے والا جنازہ
امام احمد بن حنبل نے 12 ربیع الاول 241ھ بمطابق 2 اگست 855ء کو بغداد میں انتقال کیا۔ پھر چشمِ فلک نے وہ نمازِ جنازہ کا وہ عظیم اجتماع دیکھا کہ جس میں مؤرخین کے مطابق تقریباً 8 لاکھ افراد شریک ہوئے۔
یوں امام احمد بن حنبل کا وہ قول بھی پورا ہوا کہ
"ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے۔"
آپ کا سب سے بڑا مخالف معتزلہ کا احمد بن ابی داؤد تھا جو بغداد میں قاضی القضاۃ تھا۔ اُس کے جنازے میں چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی شریک نہ تھا جبکہ امام احمد کے جنازے کی مثالیں آج صدیوں بعد بھی دی جاتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے