ہمیں یہ جان کے دونی مسرت ہو رہی ہے کہ ایسے وقت جب قومی معیشت گہری کھائی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ڈالر مستقل قومی خزانے کے قلعے میں شگاف بڑھاتا جا رہا ہے۔
کفایت شعاری ، لگژری آئٹمز کی درآمد اور بجلی کی بچت کے لیے کاروبار کی جلد بندش سمیت ایک ہا ہا کار الگ مچی پڑی ہے۔کچھ پتہ نہیں کہ آئی ایم ایف کے روٹھے سیاں کیسے مانیں گے۔کسی لال بھجکڑ کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ملک کو سری لنکا بننے سے روکنے کے لیے پھسلواں ڈھلان پر ایسی کیا رکاوٹ ڈالے کہ کم ازکم اس میں پاؤں ہی اٹک جائیں۔ بھلے ہم بھی ساتھ لٹک جائیں۔
اس پس منظر میں آزاد کشمیر سے آنے والی ایک خبر نے دل خوش کر دیا۔وہاں کی حکومت جس کا لگ بھگ نوے فیصد بجٹ اسلام آباد فراہم کرتا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا ہے کہ صدر بیرسٹر سلطان محمود کے لیے دس کروڑ روپے سے زائد لاگت کی مرسڈیز ایس فائیو ہنڈرڈ فورمیٹک خریدنا اس وقت کشمیر کاز کی پٹرولیت کے لیے ازبس ضروری ہے۔اس گاڑی کے لیے بجٹ میں رقم مختص ہو چکی ہے۔ اس بابت نوٹیفکیشن عین اس دن جاری ہوا جب چار وزرا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس بار اسلام آباد سے ملنے والی گرانٹ میں صحت ، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں رقم کی کٹوتی کشمیریوں کے ساتھ کتنا بڑا انیائے ہے۔
اس مرسڈیزی خبر پر اور تو اور خود آزاد کشمیر میں حکمران پی ٹی آئی کے بہت سے حامی بھی چلا اٹھے ہیں اور انھوں نے پارٹی قائد عمران خان سے براہ راست الللوں تللوں کو رکوانے کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔
اب سے دو ہفتے قبل یہی حکومتِ آزاد کشمیر چار سابق وزرائے اعظم کے لیے دو کروڑ روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کی منظوری دے چکی ہے۔اس رقم سے محترم سردار یعقوب خان ، مکرم سردار عتیق احمد ، عزت مآب چوہدری عبدالمجید اور فخرِ کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کو نئی کرولا اٹھارہ سو سی سی دان کی جائے گی۔ سابق وزیرِ اعظم جلیل القدر راجہ فاروق حیدر اور سابق صدر اور حال مقیم واشنگٹن سفیرِ پاکستان ہز ایکسیلینسی سردار مسعود خان گزشتہ برس سبکدوش ہوتے ہی اٹھارہ سو سی سی کرولا بطور استحقاق وصول پا چکے ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس استحقاق پر بعض حلقے اتنا واویلا کیوں کر رہے ہیں۔معیشت تو پھر بھی ایک نہ ایک دن بحال ہو جائے گی۔عزت اور استحقاق ایک بار مجروح ہو جائے تو بحال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ویسے بھی مذکورہ بالا تمام عظامِ گرامی تحریکِ آزادیِ کشمیر کے نامور ہیروز میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق برمنگھم تا مظفر آباد مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے اپنی جوانی لٹا دی۔
ان ہی کے سبب آج چار دانگِ عالم میں کشمیر کا باجا بج رہا ہے اور بے آواز بھی ہے۔شہید مقبول بٹ ، سید علی گیلانی ، یاسین ملک اور لائن کے اس پار مصروفِ جدوجہد دیگر اکابرین کی جدوجہد بھی اپنی جگہ سراہنے کے قابل ہے۔
سردار ابراہیم خان ، میر واعظ یوسف شاہ ، سردار عبدالقیوم نے بھی کشمیر کاز کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔مگر کشمیریوں کی نئی قائدانہ پود کی قیادتی صلاحیت اور مثالی کارکردگی کا سابقینِ کرام میں سے شاید کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
کشمیر کی مسلح جدوجہد میں حصہ لینے والے قائدِ اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری ، فاطمہ جناح کے منہ بولے بیٹے ، آزاد کشمیر کے آئینی معمار اور صدر کے ایچ خورشید زندہ ہوتے تو آزاد کشمیر کی موجودہ قیادت کے آدرش اور عمل کو دیکھ کے نہال ہوتے اور اپنی مسلسل دعاؤں سے نوازتے۔
وائے قسمت آپ کا انتقال گیارہ مارچ انیس سو اٹھاسی کو اس وقت ہوا جب آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں ایک عام گمنام مسافر کی طرح سفر کر رہے تھے اور اس مسافر گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا۔کاش خورشید صاحب آج ہوتے تو اٹھارہ سو سی سی کی استحقاقی برانڈ نیو ٹیوٹا کرولا میں محفوظ رہتے۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر کے لیے جو دس کروڑ روپے سے زائد کی گاڑی خریدی جائے گی یا سابق صدور اور وزرائے اعظم کو جو بھاری بھاری کرولاز دی گئیں یا دی جائیں گی وہ ان کے ذاتی استعمال کے لیے ہیں ؟ آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں۔
چونکہ کشمیر ایک دشوار پہاڑی علاقہ ہے وہاں بھاری فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت آسان نہیں۔ لہٰذا اب یہ قیادت انھی گاڑیوں میں بیٹھ کر جہادِ کشمیر کی پیشوائی کرتے کرتے سری نگر میں داخل ہو گی اور اس پار کے کشمیریوں کو فتح کے بعد انھی گاڑیوں کی چھت اور بونٹ پر بٹھا کے وکٹری کا نشان بنانے کا موقع دے گی۔انشااللہ۔
جب تک وہ دن نہیں آتا تب تک یہ گاڑیاں اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر مشقیں کریں گی اور کبھی کبھار مظفر آباد میں بھی درشن کروائیں گی۔یہ مظفر آبادی بھی عجیب لوگ ہیں۔کبھی اپنی قیادت سے راضی نہیں ہوتے۔ہر وقت شکوہ سنج رہتے ہیں کہ
وے صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں
کہ جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
ہمارے محلے کے حجام نے یونہی نہیں برسوں سے یہ تحریر فریم کروا کے لٹکائی ہوئی ہے کہ کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔
ایک تجویز یہ بھی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو پچھلی سات دہائیوں سے اجاگر کرنے میں یکے بعد دیگرے طلوع و غروب ہونے والی مظفر آبادی حکومتوں اور اسلام آباد میں قائم کشمیر کمیٹی نے جس شاندار کارکردگی کا اب تک مظاہرہ کیا ۔اس کا اعتراف کرتے ہوئے کشمیر کاز کے فروغ کو بھی صنعتی درجہ دے کر تمام ڈیوٹیوں سے مبرا کر کے مستقل ٹیکس چھوٹ دے دی جائے۔ان تجویز کنندگان کا کہنا ہے کہ چھوٹ تو پہلے ہی سے نافذ ہے بس اس سے پہلے ٹیکس لکھنا ہے۔
ہم ایسی تمام فضول تجاویز کے مخالف ہیں۔ ان پر عمل درآمد کی شکل میں پوری کازیانہ مشق عامیانہ ہو سکتی ہے اور موجودہ قیادت کی توجہ مقصد پر مرکوز رہنے کے بجائے ادھر ادھر بھی بھٹک سکتی ہے۔ہم تو بس ان سب کے لیے دعا گو ہیں۔اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔
تبصرہ لکھیے