ہوم << تختی قلم دوات - سمیرا امام

تختی قلم دوات - سمیرا امام

ہمارے بچپن میں تختی لکھنے لکھانے کا الگ ہی اہتمام ہوا کرتا تھا ۔

اول تو ابا حضور نے بہترین اور بڑی تختیاں لاکے دیں ۔ پھر والدہ صاحبہ نے ان پہ گاچی ملنے کے طریقے سکھائے ۔ اسکول میں جب بریک کا وقت ہوا کرتا تو ہمیں اپنی تختی دھوکے سکھانی ہوتی کیونکہ بریک کے بعد تختی لکھنے کی جماعت ہوا کرتی تھی ۔ ایک تختی گھر سے لکھ کے آتے جو صبح چیک ہوجاتی ۔ دوسری تختی اسکول میں لکھی جاتی ۔ تختی دھونا سکھانا اور پھر لکھنا یہ کوئی عام بات نہیں تھی باقاعدہ ایک تہوار کی طرح منایا جاتا ۔

اسکول میں لگے نلکوں کے سامنے ایک لمبی لائن کہ کس کی باری پہلی آتی ہے ۔ ہم جس پرائمری اسکول میں زیرِ تعلیم تھے اس کے نچلے پورشن میں لڑکوں کا اسکول تھا ۔ کبھی جب سہیلیوں سے پہلے تختی دھونے سکھانے کی جلدی ہوتی تو ہم بھاگ کے لڑکوں کے اسکول سے اپنی تختی دھو لاتے ۔ ہماری بریک کے اوقات اور لڑکوں کے اوقات میں فرق تھا ۔ اس سے بھی زیادہ پھرتی دکھانی مقصود ہوتی تو اسکول کے سامنے بنے گھروں میں جاتے جہاں کی بچیاں بھی یا تو اسکول فیلو تھیں یا ہم جماعت .

اس ضمن میں اللہ مغفرت فرمائے خالہ خورشید کا گھر سب سے اہم جگہ تھی جہاں بچیاں نہ صرف تختی دھونے جایا کرتیں بلکہ واپسی میں خالہ خورشید چائے کا تھرماس بھی اساتذہ کے لیے بھجواتیں ۔نہ گم ہونے کا خدشہ تھا نہ گلیوں میں کھیلنا ممنوع تھا نہ لوگ برے تھے اور نہ ہی پروپیگنڈہ کرنے والوں تک آسان رسائی موجود تھی ۔ اچھائی برائی ہرزمانے کا حصہ رہی تھی ۔ بہت سی مشہور باتیں اس وقت بھی گردش میں رہتیں ۔ لیکن مجموعی ماحول بہت ہی صاف ستھرا تھا ۔

خیر جب تختی دھونے کے لیے جگہ مل جاتی تو مل مل کے اچھی طرح تختی صاف کرنا کہ صاف تختی پہ کالی روشنائی سے لکھا خط نہایت خوبصورت اور بھلا معلوم ہوتا ۔ جبکہ جن بچیوں کی تختی پہ سیاہی کی کالک رہ جاتی تو دوبارہ لکھائی مزید کالی لگتی اور استانی سے شاباش نہیں ملا کرتی ۔ دھونے کے بعد گاچی لگانا ایک آرٹ تھا ۔ زیادہ لگ گئی تو قلم پھیرنے میں مشکل ۔ کم لگ گئی تو صفائی کا مسئلہ ۔ لہذاخوبصورت تہہ لگا کے گیلا ہاتھ اچھی طرح پھیرا جاتا کہ تختی خوبصورت اور ایک لیول میں ہو ۔

پھر سب بچیاں اسکول کی چھت پہ ایک قطار میں کھڑی ہوتیں اور زور زور سے ہاتھ ہلا ہلا کے تختی سوکھاتیں ۔ ساتھ میں ایک لمبی سی نظم بھی پڑھی جاتی جو اب ذہن سے محو ہو چکی ہے ۔ جب تختی سوکھ جاتی اب پنسل سے بالکل سیدھی لائنیں لگائی جاتیں ۔ جن کے قلم سب سے اچھے تراشے ہوئے ہوتے انکی لکھائی بھی اچھی ہوتی ۔ یہ خیال رکھ کے لکھنا کہ قلم ترچھا کٹا ہو ۔ سیاہی میں اکثر پرانے موٹے سیل کی بیٹری نکال کے پیس کے ڈالی جاتی ۔ تا کہ سیاہی گاڑھی ہو۔ اکثر بچیاں سیاہی کی دوات میں فوم کے ٹکڑے ڈالتیں کہ سیاہی بستے میں گرے نہیں۔ اور پھر قلم ڈبو ڈبو کے لکھا جاتا ۔ جس دن تختی اچھی لکھنے پہ شاباش ملتی اس دن خوشی سے پھولے نہ سماتے ۔

اچھی قلم دوات کا اہتمام بھی ایک الگ ہی مسئلہ تھا ۔ ہمارے گھر کے قریب بانس کے کانوں کا ایک منا سا جنگل تھا جس کے بالکل قریب ریل کی پٹڑی ہوا کرتی تھی ۔ اس جنگل میں گھوم کے پہلے مرغی کے انڈے ڈھونڈے جاتے ۔ کہ اکثر مرغیاں وہاں انڈے دیتی تھیں ۔ وہ انڈے آس پڑوس کے گھروں میں دے کے آتے ۔ یہ بھی فخریہ لمحہ ہوتا کہ بچے اتنے امین ہیں کہ انڈے گھر لے کے نہیں گئے ۔ گھر والے خوب شاباشی دیتے ۔

پھر ایسے کانے ڈھونڈ کے توڑے جاتے جن سے قلم بن سکتا ہو ۔ ڈھیر سارے قلم بنوا کے سہیلیوں کو تحفتاً بھی دیے جاتے ۔ اچھی سیاہی کا تحفہ بھی اکثر ہی دیا جاتا ۔ وگرنہ اپنی دوات سے سہیلی کے دوات میں آدھی سیاہی ڈالنا تو ایک عام سی بات تھی ۔ آج بھی تختی فیسٹول یادوں کا اہم حصہ ہے ۔ لیکن اب شاید بچے کبھی تختی نہیں لکھ پائیں گے