بی جے پی کی ترجمان ملعونہ نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام محمدﷺ پر کیے گئے قابل اعتراض ریمارکس پر ہنگامہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اسلامی ممالک قطر، کویت، ایران نے وہاں مقیم ہندوستانی سفیر کو طلب کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
اسلامی ممالک کے میڈیا میں بھی اس تنازعے کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔ سعودی عرب، پاکستان، ترکی وغیرہ جیسے مسلم ممالک کے اخبارات نے کئی مضامین میں سخت ردعمل کے تبصرے شائع کیے ہیں۔ مودی کے کٹر ہندوتوا کے تحت ہندوستان اپنی تمام اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو پامال کر رہا ہے اور ان پر ظلم کر رہا ہے۔ترکی کی سرکاری ایجنسی ٹی آر ٹی ورلڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ مودی کے 2014 ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے جنونی ہندو ہجوم نے کئی مسلمانوں اور دلتوں کو گائے کا گوشت کھانے یا نقل و حمل کے شبہ میں مار مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ٹی آر ٹی کی رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ ‘انتہائی دائیں بازو کے گروہوں نے لو جہاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی تھیوری ہے۔ مسلمانوں پر کووڈ- 19 پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ حالیہ معاملے میں، ہندوتوا کا ہجوم جمعہ کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔رپورٹ میں حجاب تنازع، مسلم پھل اور سبزی فروشوں اور مٹن فروشوں کو نشانہ بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ترکی کی خبر رساں ایجنسی نے مزید لکھا، ‘اپریل کے شروع میں ہندو تہوار کے دوران ہندوتوا کے ہجوم نے کئی علاقوں میں مساجد پر پتھراو کیا۔ ہجوم نے مساجد کے باہر بلند آواز میں مذہبی گیت گائے۔ ہندو سنت اپنی مسلم مخالف بیان بازی کے لیے مشہور ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی ذات پات کی صفائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔جبکہ الجزیرہ قطر نے لکھا کہ اس تنازعہ نے عرب ممالک میں سوشل میڈیا صارفین کا غصہ بڑھا دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر لوگ بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صارفین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کی مذمت کر رہے ہیں اور ہندوستان پر اسلام فوبیا کو فروغ دینے میں فرانس کے نقش قدم پر چلنے کا الزام لگا رہے ہیں۔بنگلہ دیش کا مسلم اکثریتی اخبار ڈیلی اسٹار لکھتا ہے کہ قطر نے ہندوستانی سفیر دیپک متل کو طلب کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قابل اعتراض ریمارکس پر اپنا شدید احتجاج درج کرایا۔اخبار نے نوپور شرما کو بی جے پی سے نکالے جانے پر لکھا ہے، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی نے پیغمبر اسلام اور اسلام کے بارے میں قابل اعتراض اور فرقہ وارانہ بیانات کے بعد اپنی ترجمان نوپور شرما کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا ہے۔خلیج ٹائمز لکھتا ہے، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی نے پنی قومی ترجمان نوپور شرما کو اقلیتوں کے خلاف تبصرے کے بعد پارٹی سے معطل کر دیا۔ نوپور کے ریمارکس کی شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ پارٹی نے دہلی بی جے پی میڈیا ونگ کے سربراہ نوین کمار جندل کو بھی ان کے قابل اعتراض ریمارکس کے لیے نکال دیا ہے۔
شاتم رسولؐ نوپورشرما کے خلاف مسلمانوں کا غم وغصہ بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔ بھارت میںجمعہ کو نماز کے بعدمسلمانوں نے کشمیر سے کنیا کماری تک جو احتجاج درج کرایا ، اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ مسلمان کسی اپیل کے بغیر پورے ملک میں شاتم رسول کو کیفرکردار تک پہنچانے کے مطالبات لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن اپنے پیارے نبی ؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ تمام یقین دہانیوں کے باوجودبی جے پی حکومت شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے سے بچ رہی ہے۔ نوپور شرما اور نوین جندل کی دریدہ دہنی کے نتیجے میں مودی حکومت لیپا پوتی سے کام چلانا چاہتی ہے۔بی جے پی نے حقیر سیاسی فائدے کے لیے منافرت کے جو بیج بوئے تھے، وہ اب تناور درختوں کی شکل میں سب کے سامنے ہیں۔بی جے پی ترجمان نوپورشرما کی طرف سے رسول اللہ اور حضرت عائشہؓ کے خلاف دئیے گئے توہین آمیز بیانات کیخلاف پوری دنیاکے مسلمان متحد ہوگئے ہیں اور وہ ایک آواز ہوکر عبرتناک سزاؤں کا مطالبہ کررہے ہیں۔
عرب ملکوں نے ہندوستانی سفیروں کو طلب کرکے انھیں اپنے غم وغصہ سے آگاہ کرایا ۔ اوآئی سی نے ہندوستان کو یہ باور کرادیا ہے کہ اب پانی سر سے اونچاہوچکا ہے۔ اب تک ہندوستان اپنے ہاں اقلیتوں کے جان ومال سے ہورہے کھلواڑ پر اوآئی سی کے احتجاج کو اندرونی معاملہ قرار دے کر مسترد کرتا رہاہے۔ اس بار بھی مودی سرکار نے ایسا ہی کیااور اوآئی سی کوتنگ نظر تنظیم قرار دے کر اس کے بیان کو مسترد کردیا۔ لیکن توہین رسالتکا معاملہ ایسا ہے کہ اس میں اقوام متحدہ نے بھی زبان کھولی ہے اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف حکومت کو متنبہ کیا ہے۔مسلم ملکوں کے شدید احتجاج کے بعد دہلی پولیس حرکت میں آئی اور اس نے نوپور شرما اور نوین جندل کے خلاف ایف آئی توآر درج کی، لیکن معاملے کو برابر کرنے کے لیے ایم آئی ایم صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی،صحافی صبا نقوی سمیت 32دیگر لوگوں پر بھی اشتعال پھیلانے کے لیے کیس درج کرلیے۔
ان میں بدترین مسلم دشمن سادھو یتی نرسنگھا نند کا بھی نام ہے جو عرصہ سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہے اور اسی نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کچھ عرصہ پہلے رسول اللہ کی توہین کی تھی۔یتی نرسنگھا نند کے خلاف پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔یہاں تک کہ ہری دوار کی دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکیاں دی گئیں اور مارنے مرنے کی باتیں ہوئیں۔تب بھی پولیس حرکت میں نہیں آئی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بی جے پی کی پوری سیاسی عمارت مسلم دشمنی پر ہی کھڑی ہوئی ہے۔
اس کے لیڈران کھلے عام انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف بیان دے کر ہندو ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بی جے پی کی پوری سیاست مسلمانوں کو حاشیہ پر پہنچانے سے عبارت ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کا ایک بھی ممبر مسلمان نہیں ہے۔ در حقیقت ہندتوا سیاست پر عمل پیرا دنیا کی سب سے بڑی پارٹی میں ملک کے 20 کروڑمسلمانوں یعنی 15 فیصد آبادی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اس کے باوجود اگر بی جے پی آج دنیا کے سامنے یہ کہہ رہی ہے کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے تو اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اب تک ہندوستان میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی ہوتی رہی ہے.
اس پر عموماً مسلم ملکوں نے زبان کھولنے سے گریز کیاہے اور اسے ہندوستان کا اندرونی معاملہ سمجھ کرنظرانداز کیا گیاہے، لیکن اس کے خلاف عرب عوام میں گزشتہ آٹھ برسوں سے جو لاوا پک رہا تھا وہ اچانک پھٹ پڑا ہے اور وہاں کی حکومتوں نے باقاعدہ احتجاج کی راہ اختیار کی، کیونکہ یہ معاملہ محض اقلیتوں کے جان ومال کی بربادی اور فرقہ وارانہ منافرت کا نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے تھا اور وہ بھی اہانت رسول ؐسے۔دنیا جانتی ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن وہ اپنے پیارے رسول کی توہین کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتا۔
تبصرہ لکھیے