میرے علم میں نہیں ہے کہ برٹش راج میں اُس وقت کے ہندوستان میں بجٹ کس طرح سے پیش ہوتا تھا یا سرے سے ہوتا ہی نہیں تھا کیونکہ باوجود تلاش کے مجھے اکبرالٰہ آبادی سمیت تقسیم سے قبل کہیں بھی اس کا ذکر یا تبصرہ نہیں ملا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شائد اُس زمانے کی حکومت کسی اور سے مشورے کے بغیر اسے خود ہی بناتی اور خود ہی منظورکرتی تھی البتہ قیام پاکستان کے بعد سے فکاہیہ کالموں اور مزاحیہ شاعری میں اس کا ضرور ملتا ہے کہ اب تنخواہ دار طبقے سمیت معاشرے کا ہر طبقہ کم یا زیادہ اس سے متاثر ہوتاہے اور اس تاثر کا اظہار بھی کُھل کر کرتا ہے۔
ذرا آگے چلیں تو بجٹ پیش کرنے والی سول حکومت کو ایوان میں بجٹ پیش کرنے کے دوران اپوزیشن کے احتجاج، تنقید اور شور شرابے کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا تھا، اب گویا یہ ایک روایت سی بن گئی تھی کہ بجٹ بالآخر پاس تو ہوجاتا تھا مگر مسلسل بلند آواز سے دیر تک بولنے کی وجہ سے اسے پیش کرنے والے وزیر خزانہ کا گلہ اور آواز کئی دنوں تک ابنارمل حالت میں رہتے تھے مگر اس بار یعنی 2022-23 کے بجٹ سیشن کے دوران کئی نئی روایات کا اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت تک وفاق اور دو صوبوں یعنی سندھ اور خیبر پختونخوا کے بجٹ تو پیش اور پاس ہوگئے ہیں مگر سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب کا بجٹ حکومت کی طرف سے متعدد کوششوں کے باوجود پیش نہیں کیا جاسکا کہ ایوان چلانے کے ذمے دار یعنی اسپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی (جنھیں کل تک تقریباً تمام سیاستدان زمانہ دیدہ دانش مند خاندانی اور تحمل مزاج قرار دیتے تھے) اپنے استحقاق کے حوالے سے اسے دو دن سے پیش نہیں ہونے دے رہے۔
پہلا دن تو عطا اللہ تارڑ کی ایوان میں متنازعہ موجودگی کی نذر ہوگیا کہ اگرچہ وزیر اعلیٰ نے انھیں اپنی کابینہ میں شامل کرکے وزیر کا عہدہ بھی دے دیا ہے مگر وہ فی الوقت اسمبلی کے ممبر نہیں ہیں۔
اس اعتبار سے اسپیکر کا انھیں ایوان سے باہر جانے کا حکم دینا بالکل صحیح اور حسبِ قانون تھا جب کہ دوسرا دن اپوزیشن کی اس ضد کی نذر ہوگیاکہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران صوبے کی 74 سالہ تاریخ میں پولیس پہلی بار ایوان کے اندر آئی جس سے اُن کے بقول اسمبلی اور ممبران دونوں کا وقار مجروح ہوا ، سو اب تلافی کے لیے آئی جی اور چیف سیکریٹری کو منتخب ایوان کے سامنے پیش ہو کر اس کی وضاحت پیش کرنی چاہیے اور معافی طلب کرنا چاہیے جب کہ حکمران بنچ اس کی مخالفت کر رہا ہے، اب چونکہ اس تنازعے کا پس منظر قائد ایوان کے متنازعہ انتخاب سے ہے، اس لیے دونوں پارٹیاں اپنا اپنا حساب برابر کر رہی ہیں۔
جہاں تک بجٹ کے اعداد و شمار کا تعلق ہے وہ روایتی تقریر سے پہلے ہی میڈیا میں آچکے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بجٹ جس افراتفری اور دباؤ کے تحت بنایا گیا ہے اُس میں عوام کے لیے کسی خیر کی خبر کا نہ ہونا پہلے سے طے تھا لیکن ترقیاتی اسکیموں کی کمی ، تعلیم اور صحت کی بے مائیگی اور مزید ٹیکسوں کی دھمکیوں نے جس طرح مستقبل قریب کے ہر منظر کو دھند لا دیا ہے۔
اس کا تقاضا یہی ہے کہ سب لوگ حکومت اور اپوزیشن سے اوپر اُٹھ کر اس معاملے کو ’’ریاست‘‘ کے حوالے سے دیکھنے، سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں واقعی ملک کی معیشت، عزت اور ساکھ سب کچھ دائو پر لگ جائے گا۔
متعلقہ اعدادو شمار چونکہ بار بار آپ سن چکے ہیں اور ابھی کچھ دن اور تک سنتے بھی رہیں گے سو میں اُن کے پھیر میں نہیں پڑتا لیکن اتنا ضرور معلوم کرنا چاہوں گا کہ پنشنرز کے لیے صرف 5% اضافہ کس وجہ سے کیا گیا ہے، بتایا گیا کہ شائد چند ماہ قبل 10% اضافہ اُن کی پنشن میں کیا جاچکا ہے، اس وجہ سے یہ 5% ملا کر 15% ہوجائے گا۔ لیکن میری اطلاعات کے مطابق وفاق میں شائد ایسا کیا گیا ہو لیکن پنجاب کی حد تک یہ اضافہ عمل میں نہیں آیا، اگر یہ غلطی ہے تو اسے ٹھیک کیا جائے اور اگر فیصلہ ہے توا س پر دوبارہ غور کیا جائے۔
بجٹ کے موسم کا ایک پھل اور اس پر ہونے والے مزاحیہ تبصرے بھی ہیں جن میں مزاح کی آڑمیں شاعروں نے بہت گہری اور پتے کی باتیں کی ہیں۔ اس وقت پاک و ہند میں اس حوالے سے سب سے بڑا اور اہم نام انور مسعود کا ہے تو آخرمیں حالات کی تلخی کو کم کرنے اور مسکراہٹوں کو چہروں پر واپس لانے کے لیے انور مسعود کے ہی کچھ قطعے
تمہاری اقتصادی پالیسی بھی
بڑی کمزور اور محدود نکلی
کہا تھا سُود پر قرضے نہ لینا
نصیحت اس قدر بے سود نکلی
…………
کچھ آٹے دال کی بات نہ پوچھو
کہ قیمت انکی چڑھتی جا رہی ہے
چِھڑا ہے ذکر جس دن سے بجٹ کا
گرانی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے
خلائی لیب کے گرنے سے پہلے
حوادث پیش کتنے آگئے ہیں
اچانک اک بجٹ آکر گرا ہے
کروڑوں لوگ نیچے آگئے ہیں
…………
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے ترے
اللّے تلّلے اُدھارے ترے
بھلا کون قرضے اُتارے ترے
…………
قسم ہے گزرتے ہوئے وقت کی
کہ انسان بے شک خسارے میں ہے
یہ ارشادِ باری مجھے یوں لگا
ہمارے بجٹ ہی کے بارے میں ہے
تبصرہ لکھیے