ہوم << وفاقی بجٹ میں نظر انداز علاقے- ظہور دھریجہ

وفاقی بجٹ میں نظر انداز علاقے- ظہور دھریجہ

سال 2022-23ء کے وفاقی بجٹ میں کل اخراجات کا تخمینہ 95کھرب 2 ارب روپے ہے جبکہ ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپے لگایا گیا ہے ، کمی کس طرح پوری ہوگی اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔

سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 550 ارب جبکہ دفاع کیلئے 1450ارب روپے رکھے گئے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مہنگائی میں اضافے کی شرح تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔ریٹیلرز کیلئے فکسڈ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا ہے، ٹیکس وصولی بجلی کے بلوں کے ساتھ کی جائے گی ، ٹیکس کی شرح 3 ہزار سے 10 ہزار روپے ہو گی ، ایف بی آر تاجروں سے مزید سوال نہیں کرے گا۔ بجلی بل پہلے ہی عذاب بنا ہوا ہے، نجانے کتنے ٹیکس پہلے ہی بجلی بلوں کے ساتھ نتھی ہو چکے ہیں، اگر انکم ٹیکس بھی واپڈا والوں نے وصول کرنے ہیں تو ایف بی آر کس مرض کی دوا ہے؟۔ حکومت غریبوں کو جینے کا حق دے اور بجلی کے جھٹکوں سے مارنے کی پریکٹس ختم کرے، ظلم تو یہ ہے کہ وزیر توانائی خرم دستگیر نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ بجٹ میں جتنی کم سبسڈی ملے گی بجلی اتنی ہی مہنگی ہو گی۔

پہلا بجٹ پیش کیا گیا جس میں شور شرابا نہیں ہوا، اسمبلی میں کوئی اپوزیشن نہ تھی ، رد عمل عوام دیں گے ۔ وفاقی بجٹ میں قابل تعریف بات یہ ہے کہ ادویات ،سولر پینل ، زرعی آلات اور اجناس پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے لیکن یہ چھوٹ تب کار آمد ہو سکتی ہے کہ ادویات کی قیمتیں کم ہوں ، زرعی آلات، اجناس اور سولر پینل سستے داموں دستیاب ہوں، اگر ادویات ، زرعی آلات اور سولر بنانے والی کمپنیاں ٹیکس چھوٹ بھی حاصل کر لیں اور قیمتیں بھی کم نہ ہوں تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی ۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250 ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کر دی گئی ہے مگر یہ اضافہ اس صورت میں مفید اور کار آمد ہو سکتا ہے کہ اس رقم کی ایک ایک پائی مستحق افراد تک پہنچے، شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے، دونمبر کارڈ اور مڈل مین کا کردار ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ طلباء کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان قسطوں پر فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے.

لیکن اصل بات یہ ہے کہ لیپ ٹاپ اچھی کوالٹی کے ساتھ اصل قیمت پر ملے، کوالٹی ٹھیک نہ ہو اور قیمت بھی مارکیٹ سے زیادہ ہو تو یہ طلباء کو ریلیف نہیں بلکہ تکلیف والا معاملہ ہوگا۔ موجودہ بجٹ میں وسیب کو ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا ہے، غازی یونیورسٹی ڈی جی خان ، زکریا یونیورسٹی ملتان میں صوفی ازم انسٹیٹیوٹ کیلئے فنڈز کے علاوہ راجن پور اضافی کیرج وے ، ڈی جی خان راجن پور موٹر وے ، ہیڈ محمد والا رابطہ سڑک، بھونگ انٹرچینج کے منصوبے تو دئیے گئے ہیں مگر رقم قلیل رکھی گئی ہے، مظفر گڑھ میں سیلاب سے متاثرہ سڑکوں کی مرمت ،ضلع بہاولپور میں سڑک اور پل بنانے کے چھوٹے موٹے منصوبے دئیے گئے جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

وسیب کو کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ نہیں دیا گیا، بجٹ میں ترمیم کر کے وسیب کو اس کی آبادی کے مطابق حصہ ملنا چاہئے ۔ تعلیم ، صحت اور روزگار کیلئے بھی قلیل رقم مختص کی گئی ہے۔سرائیکی وسیب زرعی سماج ہے مگر آبپاشی کا ایک بھی منصوبہ نہیں دیا گیا جبکہ بلوچستان کی کچھی کینال کیلئے بھاری رقم رکھی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال کی 1150 ترقیاتی اسکیموں کیلئے 105 ارب بلوچستان، 68 ارب سندھ، 50 ارب پنجاب اور 48 ارب روپے خیبر پختونخواہ کے لئے مختص کئے گئے ہیں مگر پنجاب کی آبادی تینوں صوبوں کی مجموعی آبادی سے بڑھ کر ہے ،جب رقم ہی اتنی کم مختص ہوئی ہے تو پنجاب سرائیکی علاقوں کو کیا دے گا؟۔ حکمرانوں سے بڑھ کر قابل مذمت کردار وسیب کے ان ارکان اسمبلی کا ہے جو وسیب سے ووٹ لے کر جاتے ہیں اور اسمبلی میں خالی تالیاں بجا کر واپس آ جاتے ہیں۔

سرائیکی وسیب کو وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی نئی یونیورسٹی یا وفاق کی طرف سے کوئی بڑا تعلیمی ادارہ نہیں دیا گیا،سرائیکی وسیب میں بے روزگاری کے خاتمے اور صنعتی ترقی کیلئے ٹیکس فری انڈسٹریل زون کے قیام کیلئے کوئی فنڈز مختص نہیں ہوئے ۔ وسیب کو کپاس ، گندم ، آم اور دوسری اجناس کے ساتھ یورنیم کی رائلٹی دی جائے اور زرعی آلات کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی ملنی چاہئے تھی ۔

ہم نے بجٹ تجاویز کے موقع پر مطالبہ کیا تھا کہ وسیب کے شعراء کرام اور اہل قلم کو حقوق دیے جائیں اور وسیب میں ادبی ثقافتی ادارے بنائے جائیںمگر ہماری بات نہیں مانی گئی اور ہمارے مطالبے کے باوجود سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے فنڈز نہیں رکھے گئے، وسیب کے آثار کو بچانے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی وسیب میں سیاحت کے فروغ کا کوئی منصوبہ ملا ہے۔چولستان کو شدید قحط سالی کا سامنا ہے، پانی کی کمی کے باعث زندگیاں ختم ہو رہی ہیں مگر بجٹ میں چولستان کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا، اس سے وسیب کے لوگوں میں احساس محرومی تقویت پا رہا ہے ۔

کسی بھی بجٹ کو اس وقت تک اچھا نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے ثمرات غریب عوام تک نہ پہنچیں اور غربت میں کمی نہ ہو۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ پاکستان جیسے مقروض ملک کو آئی ایم ایف تباہ کر رہا ہے، دوسری طرف ڈالر نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ تقسیم سے پہلے ریاست بہاولپور کی کرنسی اور برطانوی پائونڈ برابر تھے، امریکی ڈالر اس سے کم تھا، اگر ڈالر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے 1947ء سے 2018ء تک 71 سال کے عرصے میں ڈالر کی قیمت میں 110روپے اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ 4 سال 2018ء سے رواں سال تک ڈالر کی قیمت میں تقریباً اتنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ عرصہ عمران خان کی حکومت کا ہے، عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت باتیں کیں، بہت دعوے کئے مگر اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ سراب ہو گیا، آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر ہوشربا قرضے لئے گئے.

ایک کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے اتنے ہی لوگ بیروزگار ہوئے ،غربت میں خوفناک اضافہ ہوا، اس پر اپوزیشن کی جماعتوں نے عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا مگر آج جب پی ڈی ایم برسراقتدار آئی ہے تو اس نے عمران خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ سوال یہ ہے کہ غریب کی خطائیں کب معاف ہوں گی اور پسماندہ علاقوں کو کب پاکستان کا حصہ سمجھا جائے گا؟۔

Comments

Click here to post a comment