راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے زیر سایہ پھلنے پھولنے والے نظریہ ہندوتوا کی فرعونیت سر چھڑ کے جلوہ گر ہونے لگی ہے۔ دسیسہ شیطانی کی رہنمائی میں لکھے گئے ابواب کے عملی تسلسل کا اب سر بازار اطلاق ہونے لگا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مکمل ایک صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی بھی خود کو کوس رہی ہوگی کہ اس کے گود میں اس تنگ نظری اور تعصب آمیزی نے جنم لیا ہے۔
آر ایس ایس کے نظریہ اور وجود رعونیت نے 1925 میں اپنا قدم بڑھاتے ہوئے ہندوتوا کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ آر ایس ایس کے نصب العین میں سر فہرست یہ نکتہ تا حال شامل رہا ہے کہ اس پورے خطے کو ہندو ازم کے زیر سایہ اور زیر اثر لا کر اپنی بالادستی کے قیام کو وجود بخشا جائے۔ ابتدا میں تو بظاہر ایک عمومی متوازن سیکولر پرچار کرتے رہے اور تمام مذاہب کی یکساں احترام کے گن گاتے رہے، مگر رفتہ رفتہ سراغ رسانی کرتے کرتے مدون ہونے والے اس تصور کے اثر نے سیاست دانوں کی جانب اپنا رخ موڑ لیا۔ اس کے پشت پر بھی باقاعدہ ایک مقصد کارفرماء تھا۔ یہ اس ضرورت کے تحت کیا گیا کہ سیاسی سرپرستی کے توسط سے اپنا لوہا منوایا جائے اور اپنے چورن کو سیاسی وابستگیوں کا رنگ دے کر اپنے عزائم با آسانی نافذ کیے جائیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اپنی سرپرستی کے قیام کے لئے جب متعصب راہ اپنائی جاتی ہے تو اقلیتوں کے حقوق صلبی اور ان کے وجود کا قتل عام اولین ترجیح بن جاتا ہے۔ بعینہ آر ایس ایس مختلف پلیٹ فارمز پر اس ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہے اور مختلف سیاسی مقتدر رہنماؤں کے ذریعے اقلیتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مصروف ہیں۔
اس باب میں بی جے پی کا کردار سب سے نمایاں ہیں۔ہندوستان کی بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کے ساتھ قریبی مراسم رکھتی ہے۔ بائیں بازو کی یہ پارٹی ہندوستان میں مرکزی سطح پر 2014 سے برسر اقتدار ہے۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی آر ایس ایس کے مستقل ممبر ہے۔ اس بناء پر اس حکومت کے اقدامات مسلم اور اقلیت مخالف ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے قبل نریندر مودی بطور وزیر اعلی گجرات آر ایس ایس کے اسی فریب کاری کو دوام پہنچا چکے ہیں۔ ان کے دونوں ادوار میں مختلف قانونی ترامیم سے لے کر نئے دفعات کی شمولیت تک، یہی منازل مطلوب رہیں۔
آئیے بی جے پی کے جاری دوسرے دور حکومت کے پہلے سال کے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اپریل 2019 میں بھارت میں عام انتخابات ہوئے۔ ان عام انتخابات میں بے جے پی کامیاب قرار پائی اور نریندر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے دوبارہ اقتدار کی کرسی سنبھالی۔ اقتدار میں آتے ہی ان کے سب سے پہلے قدم اور فعل ہی نے کشمیر کی خودمختاری پر شب خون مارا۔ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے اس حکومت نے کشمیر کی خصوصیت حیثیت کو روندتے ہوئے کشمیر کے آئین اور جھنڈے کو ضبط کیا۔
بات یہاں اختتام پزیر نہیں ہوئی، اگلے ہی روز 6 آگست 2019 کو Reorganization کے نام سے ایک ایکٹ منظور کرایا گیا۔ اس ایکٹ سے قبل لداخ، جموں اور کشمیر الگ الگ ریاستوں کی حیثیت سے قائم تھے۔ اس ایکٹ نے ظلم پر ظلم کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کو ایک ریاست بناکر اس کو ہندوستان کے مرکزی حکومت کے زیر انتظام کیا اور اس کے لئے ایک قانون ساز اسمبلی کے قیام کی منظورہ بھی دی جو بظاہر ایک بے اختیار مقید چڑیا کے مانند تھی۔ اسی طرح لداخ کو بھی اپنی حکومت کے پنجے میں جکڑا، مگر کسی قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کو ممکن نہیں بنایا۔
بات فقط دفعات تک محدود نہیں، کشمیر پر ہر حد تک مظالم ڈھانا معمول بن چکا ہے۔ بی جے پی حکومت نے اہل کشمیر کا رابطہ دنیا سے منقطع کردیا ہے۔ وائٹ لسٹ کے تعارف نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ وائٹ لسٹ درحقیقت منتخب نیوز سائٹس کا مجموعہ ہیں، جس کا انتخاب ہندوستانی حکومت کرتی ہے، اور جو کشمیریوں کا ان نیوز سائٹس کے علاؤہ باقی تمام تک رسائی ناممکن بناتی ہے۔
بات فقط کشمیر تک بھی محدود نہیں، ہندوستان کے اپنے شہری، اقلیت اور مسلمان بھی ہندوتوا کی ارزانی و فراوانی سے کافی حد سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس بابت جو چیز سر فہرست آتی ہے وہ نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن ہندوستان کا وہ رجسٹر ہے جو شہریوں کو شہریت فراہم کرتا ہے۔ اس رجسٹر میں اپنا نام درج کرانے کے لیے لیجیسی ڈاکومنٹ درکار ہوتا ہے۔ یہ ڈاکومنٹ فراہم کرنے سے جو بھی قاصر رہتا ہے تو اس کی شہریت ضبط کردی جاتی ہے، اسے ملک بدر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر غیر ہندوستانی قرار دیا جاتا ہے۔ 31 اگست 2019 کو اس رجسٹر نے اپنا پہلا لسٹ شائع کرتے ہوئے آسام سے تقریبا 1.9 ملین تک بنگالیوں کی شہریت ضبط کردی تھی۔
11 دسمبر 2019 کو Citizenship Amendment Act بھی پاس کرایا گیا۔ اس دفع کی بدولت شہریت کا ادراک کرنے والے اس رجسٹر کو صرف آسام پر لاگو نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس کا اطلاق پورے ہندوستان پر کیا گیا اور کثیر تعداد میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کی شہریت ضبط کی گئی۔
اس سے قبل نومبر 2019 میں "غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ" لایا گیا۔ بظاہر تو یہ ایک احسن اقدام معلوم ہوتا ہے مگر اس کے ذیلی دفعہ میں دہشت گردی کی تعریف میں ردوبدل کرکے اس میں توسیع کی گئی۔ اب چھوٹے سے چھوٹا جرم کرنے والے کو بھی دہشت گردی کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہوگا۔ اس دفع کے توسط سے ان قوانین کا اطلاق جو دہشت گردوں کے اوپر ہوتا ہے، اب چھوٹے مجرموں کے اوپر بھی ہونے لگا۔ اس ایکٹ کا بھی روز اول کی طرح ہدف مسلمان ہی رہے۔
مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا صدمہ 9 نومبر 2019 کا واقعہ ہے۔ جب ایک غوغا بلند ہوئی اور ہندوتوا کے حامی مشتعل جھتے نے بابری مسجد کو ڈھایا۔ اس تشدد کے نتیجے میں دو ہزار کے قریب لوگ مارے گئے جو تقریباً تمام تر مسلمان تھے، اور اس حملے کو باقاعدہ طور پر بی جے پی حکومت کی سر پرستی اور پشت پناہی حاصل تھی۔
یہ تو فقط ایک سال کی کاروائی ہے معلوم نہیں کہ پچھلے ایک صدی میں کیا کیا نہیں ہوا ہوگا۔ مسلم دشمنی کی ایک طویل داستاں ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ "حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں"۔ مگر کیا کیا جائے ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہے۔
تبصرہ لکھیے