ہوم << لکھاری کی پہچان - عظمیٰ ظفر

لکھاری کی پہچان - عظمیٰ ظفر

حلیمہ نگار نے بے دلی سے فون بند کیا تھا۔
"پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں،
میں کیا اب ان معمولی لوگوں کو انٹرویو دوں گی؟ ہونہہ"۔

کچھ سالوں سے ایڈیٹر، ایڈمن اور قارئین نے اسے ادب کے آسمان پر چڑھا دیا تھا، اس کا قلم ایک شناخت تھا جریدے کی کامیابی کا، مقبولیت کا، ڈائجسٹوں کی کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بکنے لگی تھیں. سننے میں آرہا تھا کہ حلیمہ نگار کو ان کے ناولوں پر ڈرامے بننے کی آفر بھی آئی ہے۔

شہرت کا ہما ابھی اس کے سر پر بیٹھا تھا، ان ہی ساری باتوں نے اسے بے انتہا مغرور بنا دیا تھا۔

ایک لکھاری کو چہرے سے کوئی نہیں پہچانتا، لوگ اس کے لکھے کو پہچانتے ہیں. حلیمہ کے سب سے بڑے نقاد اس کے قاسم ماموں تھے. اسے بچپن سے الفاظ کے معانی بتانے والے، لفظوں سے جملے بنانے والے اور جب آہستہ آہستہ اس نے لکھنا شروع کیا تو اس کے تخیل کو پیرہن پہنانے والے، تنقید کرنے والے اور بھر پور سراہنے والے بھی. وہ جو کچھ بھی لکھتی قاسم ماموں کو سب سے پہلے دکھاتی. وہ پڑھتے، اصلاح کرتے اور تحریر کو نکھارتے تھے۔

قاسم ماموں کتابوں کے حوالے بتاتے جن سے وہ معلومات میں اضافہ کرتی، متروک لفظوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی۔
حلیمہ نگار کا قلم شہرتوں کی بلندی کو چھو رہا تھا. قاری اس کے سحر میں گرفتار رہتے تھے، انتظار کرتے تھے اور بے قرار بھی رہتے تھے۔
وقت کی رفتار سرکتے سرکتے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگئی.
حلیمہ نگار نے اس جدت سے فائدہ اٹھانا شروع کیا. مطالعہ اور محنت میں کمی آگئی، پھر محبت سے لکھنا چھوڑ دیا. سستے اور بازاری جملوں نے کہانیوں میں جگہ لینا شروع کردی. شہرت کا ہما اڑ گیا اور تکبر کا قلم رہ گیا۔
آج بہت دنوں بعد وہ اپنی نئی کہانی لے کر قاسم ماموں کے پاس آئی تھی. انھوں نے کہانی کو پڑھنا شروع کیا اور کچھ ہی دیر بعد رک گئے، چہرے کا رنگ بھی بدلنے لگا۔

"یہ کس موضوع کو چنا ہے تم نے حلیمہ؟
سچ کہوں تو سوائے بیہودگی کے اور کچھ نہیں اس میں. ایک غلط رشتے کو دوستی کا رنگ دے کر پڑھنے والوں کے ذہن کو پراگندہ کر رہی ہو۔
بالکل بکواس،"
انھوں نے مسودے کو دور کیا۔
قاسم ماموں کو غصہ آگیا تھا۔

"مجھے پتا تھا آپ کو پسند نہیں آئے گا. اب یہی سب پسند کیا جاتا ہے. گھسی پٹی محبت میں رشتوں پر کیچڑ اچھالنا، مرچ مصالحوں کے ساتھ بازاری جملے لکھنا، یہ سب عام ہے ماموں.
اب کوئی نہیں پڑھنا چاہتا حب الوطنی اور حقوق العباد والی کہانیاں." حلیمہ نے غلطی ماننے کے بجائے الٹا توجیہہ پیش کی۔

"میں نہیں مان سکتا، لکھاری معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے. جب تم گندا آئینہ دکھاؤ گی تو لوگوں کو بھی اپنا آپ گندا دکھے گا."
ماموں کےآگے اس کی دلیل بودی تھی۔

"آپ مت مانیں، اب سب کو کچھ نیاچاہیے. تھرل، تجسس، کسی کا چکر کسی کے ساتھ یہ سب چلتا ہے،،" حلیمہ نے بے فکری سے کہا۔
"لیکن برائی کو اچھالنا بھی برائی ہے، تم نے کیسے جملے استعمال کیے ہیں."
انھیں بالکل بھی کہانی پسند نہیں آئی تھی۔

"آپ دیکھیے گا کیسے ہاتھوں ہاتھ لیں گی ایڈیٹر اس کہانی کو، جہاں سے معقول رقم ملے گی اسی رسالے کو دوں گی"۔
حلیمہ کا غرور جھلکا۔

بہترین لکھاری نے جب وعدے پورے کرنے اور وقت پر تحریریں دینے کے بجائے دوسروں کو انتظار کروا کر اپنی اہمیت دکھانا چاہی تو کچھ ہی دنوں میں ایڈیٹر بھی اسے بھولنے لگے.
نئے لوگوں کو جگہ ملنے لگی. جن نومولود لکھاریوں نے حلیمہ سے لکھنا سیکھا تھا آج وہ آگے نکل گئے تھے، حلیمہ نگار پیچھے چلی گئی۔
***********

"قاسم ماموں،،، کوئی نئی کتاب ہے تو دے دیں."
ایک سہ پہر وہ خالی ہاتھ ان کے پاس آئی۔
"نئی کتاب،،،
اچھے لوگوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے حلیمہ!"
ماموں نے گہرا طنز کرتے ہوئے حد درجہ مایوسی سے کہا۔
وہ ان کی بات سمجھ کر شرمندہ ہوگئی تھی۔

"قلم کی اہمیت کم ہوگئی ہے کیا ماموں؟"
اس کی آواز رندھ گئی تھی۔

"قلم کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو سکتی حلیمہ!!
جب سے قلم کی تخلیق ہوئی اور جب حرف اٹھا لیے جائیں گے تب تک اس کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہو سکتی. جانتی ہو جب رسول کریم ﷺ سورۃ النجم کو لکھوا رہے تھے تو آیت سجدہ پر رک کر انہوں نے سجدہ کیا، ان کے ساتھ صحابہ کرام نے بھی سجدہ کیا اور ان سب کے ساتھ قلم اور دوات بھی جھک گئے تھے۔
تم سے پتا ہے غلطی کہاں ہوئی؟"
وہ بہت سنجیدگی سے اسے سمجھا رہے تھے۔
"کہاں ہوئی، بتائیں."
اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے سے کہا۔
"جب سے تم نے جھکنا چھوڑ دیا،
خود کو علم سے سیراب کرنا چھوڑ دیا تب سے"۔
انھیں اس کا جھکا سر دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی۔

یاد رکھنا حلیمہ نگار! وہی تحریریں زندہ رہتی ہیں جن میں دوسروں کے سیکھنے کے لیے کچھ ہو. اسی طرح وہی لوگ دلوں میں زندہ رہتے ہیں جو دوسروں کو کچھ سکھا کر جائیں. تم نے فیس بک اور دوسری جگہوں سے لوگوں کی چکاچوند کہانیوں میں گم ہوکر سچ اور جھوٹ کے فرق کو بھلا دیا. اس لیے وہ لکھو جو اصلاح کرے، وہ مت لکھو جو گمراہ کردے۔
جاؤ،،، پھر سے کوشش کرو. اس صلاحیت کو نعمت سمجھو اور نعمتوں کا حساب دینا ہوگا"۔
قاسم ماموں نے اسے بھولا سبق یاد دلایا تھا۔
حلیمہ نگار قلم کی نعمت سے فائدہ اٹھانے کے خود کو تازہ دم کرنے لگی۔

Comments

Click here to post a comment