مسلمانوں نے وسطِ ایشیا کو مکمل طور پر فتح کرنے کی سمت پہلا قدم سن 671ء میں اٹھایا تھا۔ زیاد بن ابی سفیان بنو امیہ کی جانب سے عراق اور تمام مشرقی علاقوں کےگورنر تھا۔ اس نے بصرہ سے 50 ہزار افراد کو جمع کر کے مرو کا رُخ کیا۔ اس سے پہلے عرب افواج صرف سالانہ بنیادوں پر ہی خراسان آتی تھیں اور ہر سال سردیوں میں زیادہ تر فوجی عراق واپس آ جاتے تھے۔ تب مرو شہر کے دفاع کے لیے معمولی سی فوج پیچھے رہتی۔ لیکن پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں عربوں کی مستقل طور پر خراسان آمد اعلان تھی کہ اب مسلمان حتمی اور فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔
سالم بن زیاد
اس قدم کے بعد صرف مرو میں ہی مسلمانوں کی تعداد اتنی ہو گئی تھی، جو ارد گرد بلکہ ایران کے کسی شہر میں نہیں تھی۔ جب 681ء میں سالم بن زیاد کی تقرری ہوئی تو آمو کے پار حملے زیادہ تواتر کے ساتھ ہونے لگے اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بھی۔ اب معاملہ صرف چھاپہ مار کار روائیوں تک محدود نہیں تھا۔ یہ سالم بن زیاد ہی تھا کہ جس نے سب سے پہلے سردیوں میں آمو دریا پار کیا اور سغدیہ کے ساتھ صلح پر معاملہ ختم کیا۔
شاید فاتحِ وسطِ ایشیا سالم بن زیاد ہوتا، لیکن 683ء میں یزید کی موت کے بعد مرکز میں جو حالات پیدا ہوئے، ان میں سالم کو شام واپس آنا پڑا۔ لیکن یہ واپسی اس کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوئی۔ وہ واپس تو آیا لیکن زیادہ عرصے بنو امیہ کے حق میں نہ رہ سکا۔ بالآخر عبد اللہ بن زبیرؓ کے اعلانِ خلافت کی تائید کر دی لیکن اس کا سالم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ امویوں کے لیے اس کی خدمات اتنی زیادہ تھیں کہ زبیریوں کو اس پر اعتماد نہیں تھا، پکڑ کر قید کر لیا اور 40 لاکھ درہم کے بھاری بھرکم معاوضے پر رہا کیا۔
البتہ حجاج بن یوسف کے ہاتھوں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی المناک شہادت تک سالم مکہ مکرمہ ہی میں رہا۔ بعد ازاں، امویوں نے اسے معاف کر دیا اور دوبارہ خراسان کا گورنر بھی بنایا لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں قبول کرنے سے پہلے ہی چل بسا۔
خراسان میں خانہ جنگی
یہ اسلامی تاریخ کے المناک ترین دن تھے۔ حضرت حسینؓ سے لے کر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی شہادت کے دوران، ایک ڈیڑھ دہائی میں مسلم دنیا نے بہت کچھ سہا۔ واقعہ کربلا کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، تبدیلی کی جو لہریں اٹھیں، ان میں خراسان کو بھلا کون پوچھتا؟ یہاں اقتدار پر گرفت حاصل کرنے کے لیے تین عرب قبائل میں خوب رسّا کشی ہوئی، ایسی جس نے دورِ جاہلیت کی یادیں تازہ کر دیں۔ ملوکیت کے اِس دور میں مال و دولتِ دنیا نے مسلمانوں کو دین سے مکمل طورپر بے بہرہ کر دیا تھا۔ بہرحال، بڑے خون خرابے کے بعد مُضر قبیلے کے سردار عبد اللہ بن حازم نے کامیابی پائی اور خراسان کا آقا بن گیا، وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا یہاں تک کہ اموی اقتدار کو ماننے سے انکار کر دیا اور عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت کی تائید کر دی۔
جب عبد الملک بن مروان نے دمشق میں تخت سنبھالا تو اس کا ہدف تھا خراسان سمیت تمام علاقوں پر اموی اقتدار کو مضبوط کرنا۔ اس نے عبد اللہ کو بڑی پیشکشیں کیں، یہ تک کہا کہ 7 سال تک تمام محصول اسی کا ہوگا۔ لیکن عبد اللہ کہاں ماننے والا تھا؟ عبد الملک بن مروان کا خط اسی کے پیام بر کو کھلا دیا۔ اس حرکت کا نتیجہ یہ نکلا کہ عبد اللہ کے خلاف بالآخر بڑی اور بھرپور کار روائی کی گئی اور وہ مارا گیا۔
صلح جُو گورنر، جو چل نہ سکا
اب خراسان میں ایک نیا گورنر تھا، خود عبد الملک بن مروان کا بھیجا گیا۔ نام تھا امیّہ بن عبد اللہ بن خالد۔ ٹھنڈے دماغ کا، سخی، امن پسند۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسے خراسان میں حالات قابو کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی۔ عبد اللہ کے دور میں جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی، اسے امیّہ جیسا صلح جُو گورنر ہر گز ختم نہیں کر سکتا تھا۔
امیّہ بن عبد اللہ نے حالات کو قابو کرنے کے لیے آزمودہ طریقہ اپنایا یعنی اعلانِ جہاد کر دیا تاکہ لوگ قبائلی عصبیت پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے بجائے کفار کے خلاف میدانِ جنگ میں جوہر دکھائی لیکن یہ کوشش بھی بارآور نہیں ہوئی۔ جیسے ہی آمو دریا پار کیا، پیچھے مقرر کیے گئے نائب نے بغاوت کر دی۔ اب امیہ چاروں طرف سے دشمن کے گھیرے میں تھا، بمشکل معاہدے کر کے اپنی جان بچائی، واپس مرو آیا، بغاوت کا خاتمہ کیا لیکن اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا موسیٰ ابن عبد اللہ بن حازم، جو اپنے باپ کے بعد ترمز میں ایک آزاد اور خود مختار حکومت بنائے بیٹھا تھا۔ امیّہ بن خالد نے کوشش تو کی لیکن نہ صرف موسیٰ کو ہرانے میں بلکہ اپنا عہدہ بچانے میں بھی ناکام رہا۔
حجاج اور مہلّب کی آمد
یہاں کہانی میں مسلم تاریخ کا متنازع ترین کردار داخل ہوتا ہے، جو بہت مقبول بھی ہے اور بدنام بھی، دنیا اسے حجاج بن یوسف کے نام سے جانتی ہے۔ وہ عبد الملک بن مروان کا دایاں ہاتھ تھا، بے رحم، ظالم، سنگ دل، سفاک لیکن ایسا شخص، جیسا بنو امیہ کو درکار تھا۔ اسے عراق اور مشرق کے تمام علاقوں کا گورنر بنایا گیا اور پھر اس نے تاریخ ہی بدل دی۔
حجاج نے خراسان میں مہلّب بن ابی صُفرہ کو مقرر کیا۔ وہی مہلّب جسے آج بھی ایک افسانوی حیثیت حاصل ہے اور ایک عظیم جنگجو سمجھا جاتا ہے۔ اس کا تعلق ازد قبیلے سے تھے۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے دور میں مہلب نے دریائے سندھ تک کارروائیاں کی تھیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے قدم لاہور تک پہنچے تھے۔ یعنی وہ درۂ خیبر کے راستے آنے والا پہلا مسلمان سالار تھا۔ خوارج کے خلاف کامیابیوں کی بدولت اسے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے فارس اور موصل کا گورنر بنایا۔ بعد میں عبد الملک بن مروان کے دور میں وہ بنو امیہ کے ساتھ مل گیا اور خراسان کا والی بنا کر بھیجا گیا۔
مہلّب کو وسطِ ایشیا بھیجنے کے اعلان ہی سے واضح ہو گیا تھا کہ اب کوئی نئی اور بڑی مہم شروع ہوگی۔ مہلب کا پہلا بڑا ہدف تھا کیش، جسے آج شہرِ سبز کہا جاتا ہے۔ یہیں پر صدیوں بعد تیمور لنگ پیدا ہوا تھا، جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔مہلب نے اس شہر کا دو سال محاصرہ کیا، لیکن کامیابی پھر بھی حاصل نہ کر سکا اور بالآخر 701ء میں صرف خراج پر راضی ہو کر ناکام لوٹا۔
بہرحال، 705ء تک عرب خراسان میں آمو دریا تک کا تمام علاقہ فتح کر چکے تھے، صرف دُور دراز پہاڑی علاقے تھے کہ جہاں کچھ مزاحمت باقی تھی۔ لیکن وہ مرو اور بلخ کے مراکز سے کسی بھی بغاوت کو کچلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن دریا کے اُس پار کہانی ذرا مختلف تھی، جہاں مقامی شاہوں اور ترکوں کا راج تھا۔ لیکن یہ سب بدلنے والا تھا کیونکہ حجاج نے خراسان کے لیے نئے والی کا تقرر کیا تھا، جس کا نام آج بھی زندہ و پائندہ ہے، یہ تھا قُتیبہ بن مسلم۔
تبصرہ لکھیے