ہوم << وزیر اعظم کا حقیقت پسندانہ خطاب - اسد اللہ غالب

وزیر اعظم کا حقیقت پسندانہ خطاب - اسد اللہ غالب

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنا منصب اپریل کے وسط میں سنبھالا،حکومت کی یہ تبدیلی مکمل طور پر آئین کے تحت عمل میں آئی ۔ اس وقت کے اپوزیشن اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد 8مارچ کو قومی اسمبلی میں جمع کروائی تھی۔

عمران خان کی غیرسیاسی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اندھوں کوبھی نظر آرہا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کے پا س نمبر گیم پوری ہے ، تو عمران خان نے پروقار طریقے سے اپنا منصب چھوڑنے کی بجائے مختلف حربے آزمانے شروع کردیئے ۔ کبھی قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا ، تو کبھی قرارداد عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا۔ مگر عدالت ِ عظمیٰ نے اس اقدام کیخلاف فیصلہ دے دیا اور ایک تاریخ مقرر کردی کہ اس روز قراردادِ عدم اعتماد پر رائے شماری کروائی جائے ۔ عمران خان نے ناکامی کے تمام واضح آثار دیکھنے کے باوجود رات کے پونے 12بجے تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ شاید کسی طرح اس کی حکومت بچ جائے ۔

لیکن اے بساآرزو کہ خاک شدہ ۔ ناکامی اور رسوائی عمران خان کا مقدر ٹھہری اور فیصلہ کن گھڑی سے صرف دس منٹ قبل انہوں نے وزیراعظم ہائوس چھوڑ دیا۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ انہوں نے اپنامن پسند میڈیا مدعو کررکھا تھا ،ان لوگوں کو بھی نہ بتایا کہ میں اب وزیر اعظم ہائوس چھوڑنے لگا ہوں ۔ بہرحال قومی اسمبلی نے میاں شہباز شریف کو نیا وزیراعظم چن لیا۔ انہیں مطلوبہ اکثریت سے زائد ووٹ ملے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی نے اپنے منحرف اراکین کے بارے میں بہت شور مچا رکھا تھا کہ ان کے ووٹ پڑے تو شہباز شریف کی کامیابی کو عدالت سے چیلنج کرکے کھٹائی میں ڈال دیں گے۔ لیکن اپوزیشن انتہائی زیر ک اور تجربہ کار نکلی، اس میں شامل تمام سیاستدان انتہائی زیرک ،جہاندیدہ اور گرم وسرد چشیدہ تھے۔ انہیں منحرفین کے ووٹوں کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، اور یوں ایک صاف ،شفاف اور آئینی عمل کے ذریعے نئی حکومت قائم ہوگئی ۔

مگر عمران خان اور ان کی پارٹی نے ان کی راہ میں روڑے اٹکانے میں اب بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ، بڑی مشکل سے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا حلف لیا گیا ،تاہم پنجاب اسمبلی میں جمہوری طریقے سے حکومت کی تبدیلی کی راہ میں بھی بہت گند ڈال دیا گیا۔ گورنر پنجاب کی تبدیلی ابھی تک نہیں ہونے دی گئی۔حمزہ شہباز کی حکو مت سازی کا عمل اب تک رکا ہوا ہے ۔ ملکی سطح پر بھی پی ٹی آئی نے جاتے جاتے بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں،اورآئی ایم ایف کے پروگرام کو مئوخر کروانے کے لئے بجلی ، پٹرول ، ڈیزل پر سبسڈی کا اعلان کردیا گیا۔ حکومت کا خزانہ خالی تھا ، پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ڈالر موجود نہیں تھے۔ اس پر مستزاد، درآمدات دھڑادھڑجاری تھیں، جن پر زرمبادلہ کے ذخائر بھی ضائع جارہے تھے۔

شہباز شریف کی حکومت ایک دوراہے پر کھڑی تھی، آگے بڑھنے کیلئے سبسڈی کا خاتمہ ضروری ہوگیا تھا۔ تاہم یوں مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ بہرحال حکومت نے یہ مشکل فیصلہ کرلیا ۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا اور انہوں نے جمعہ کی شب اپنے براہ راست نشری خطاب میں سارے حقائق کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیئے۔ انہوں نے کہاکہ اس مرحلے پر وزیراعظم پاکستان کا منصب سنبھالنا کڑے امتحان سے کم نہیں جب ملک کو گزشتہ پونے چارسال کی حکومت کے تباہ کن سنگین حالات سے بچانا مقصود ہے، شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا، تین دہائیوں کی عوامی خدمت کے سفر کے دوران ایسی تباہی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی جو سابق حکومت اپنے پونے چار سال کی بدترین حکمرانی کے بعد پیچھے چھوڑ گئی، یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو بچانے کا چیلنج قبول کیا حالانکہ یہ حقیقت ہمارے سامنے واضح تھی کہ اس تباہی سے نکلنے اور ملک کو بہتری کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے انتھک محنت اور وقت درکار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں گزشتہ دور میں ہونے والی تباہی اور بھیانک کرپشن کی ان گنت داستانیں موجود ہیں، وہیں فسادی ذہن نے معاشرتی تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے، ہماری سیاست کے رگ و ریشے میں نفرت کا زہر بھر دیا گیا، مادر وطن کی فضائوں میں انتقام، غصے اور بدتہذیبی کی آلودگی پھیلا دی گئی، ماضی کے اس دور میں نفرت کی ایک پوری فصل بوئی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگرکوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا گھمنڈ اور ضد دستورِ پاکستان اور آئینی اداروں کی متفقہ رائے سے زیادہ مقدم ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ پاکستان آئین کے مطابق چلے گا، کسی ایک فرد کی ضد سے نہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ جب سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے دور میں پاکستان نمایاں ترقی کر رہا تھا تو اس ایک شخص نے دھونس، دھمکی اور دھرنے کا ڈرامہ رچایا تھا، وہ بھی ایسے وقت میں جب پاکستان کے عظیم دوست چین کے صدر شی جن پنگ سی پیک کا تاریخی معاہدہ کرنے پاکستان کے دورہ پر آ رہے تھے لیکن اس شخص کی ہٹ دھرمی اور دھرنے سے یہ اہم ترین معاہدہ تاخیر کا شکار ہو گیا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا حکومت کا اولین فرضِ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے، نہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میری خدمات آپ کے سامنے ہیں، آپ گواہ ہیں کہ ماضی میں بھی ہم نے مشکل حالات کا کامیابی سے سامنا کیا ہے الحمداللہ، ہمارے سامنے صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو خوشحال، ترقی یافتہ اور قائد کا پاکستان بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر مشکل فیصلہ کرنے کو تیار ہیں اور ہرممکن وہ کام کریں گے جس سے قومی ترقی کا سفر آگے بڑھ سکے۔