ہوم << رضیہ سلطانہ ولد یاسین ملک کے نام - سعدیہ قریشی

رضیہ سلطانہ ولد یاسین ملک کے نام - سعدیہ قریشی

پیاری بیٹی رضیہ سلطانہ! 25 مئی کا دن بھی گزر گیا جانتی ہوں یہ دن تمہارے ننھے دل پر قدر بھاری گزرا ہوگا اور تمھاری ماں نے یہ دن کس کرب میں گزارا ہوگا۔ ہم نے یہ دن ایک سیاسی تماشے کی نذر کیا۔ ہم تم سے شرمندہ ہیں۔ حقیقی آزادی مارچ کرنے والوں کو کیا خبر کہ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کس اعلی کردار کی مالک ہوتے ہیں۔

ان کے ظاہر و باطن کیسے شفاف ہوتے ہیں ۔اگر ان میں احساس ہوتا تو یاسین ملک کی دس سالہ بچی کی درخواست کے بعد 25 مئی کے دن مارچ نہ کرتے اور یہ دن خاص مجاہد آزادی کے نام کرتے۔ تم نے روتے ہوئے ایک دن پہلے پریس کانفرنس میں انکل عمران خان سے التجا کی تھی کہ اپنے دھرنے کو دودن کے لیے آگے کردیں کچھ نہیں ہو گا ۔کل 25 مئی کو سب میرے بابا کے لیے نکلیں۔ مودی میرے بابا کو مارنا چاہتا ہے کل کادن میری بابا کے نام کردیں۔پیاری بیٹی میں نے دیکھا کی تم نے کس کرب سے گزر کر خدشوں اور ہزار وسوسوں کی دہلیز پر ٹھہر ٹھہر کر یہ الفاظ ادا کیے جو لفظ نہیں آنسو تھے۔ تمھاری آنکھوں کی نمی میرے دل کو گیلا کررہی تھی اس لمحے تمہاری بہادر اداس ماں اپنی کمسن بیٹی کی یہ التجا سن کر آنسووں سے روہی تھی۔ یقین کرو میں تمھارے ساتھ روئی ہوں اور اب یہ خط لکھتے ہوئے بھی لفظ نہیں لکھ رہی سطروں پر اپنے آنسو ٹکا رہی ہوں۔

تم صرف دس برس کی ہو اور اپنی عمر کے ان دس برسوں میں سے آٹھ برس تم نے اپنے پیارے بابا کی شفقت کے بغیر گزارے ہیں۔مہ وسال کو گنوں تو یوں ہے کہ تم پر جان چھڑکنے والے بابا نے آخری بار تمھارے کومل اور نرم وجود کو جب اپنی گود میں لیا تھا تو اس وقت تم صرف دو برس کی تھی۔ تم اتنی کمسن تھی کہ تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تمھارے بابا کا لمس کیسا تھا ۔حقیقت میں ان کے خدوخال کیسے تھے اور یہ بھی کہ ایک بیٹی کے لیے اپنے بابا کی گود کتنا محفوظ قلعہ ہوتا ہے۔ آٹھ برس ہوچکے تم نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے پیارے بابا کو چھو کر نہیں دیکھا۔ان آٹھ برسوں میں تم اپنے بابا سے لاڈ نہیں کیا نت نئی فرمائشیں نہیں کیں۔ ان کے گود میں چڑھ کر لاڈیاں نہیں کیں۔ بابا کے بالوں میں اپنے ننھے ہاتھوں سے کنگھی نہیں کی،بابا سے اپنے سکول کی ڈھیروں باتیں نہیں کیں۔

معصومانہ جوش وخروش سے اپنے ننھے ہاتھ پھیلا کر بابا کو ٹیچر سے ملنے والے سٹارز نہیں دکھائے ۔اپنے کھلونا کچن میں بابا کے لیے جھوٹی موٹی کے کھانے نہیں بنائے ۔ بابا کو گھوڑا بنا کر سیر نہیں کی ۔ان گزرے آٹھ سالوں میں کوئی بھی ویک اینڈ ایسا نہیں گزرا جس پر تم با با سے جوائے لینڈ جانے کی فرمائش کرتیں پھر واپسی پر اپنی پسند کا برگر کھاتی اور گھر آتے آتے جب گاڑی سوجاتیں تو نیند سے بھری آنکھوں والی اپنی لاڈلی کو بابا گود میں اٹھا کر کندھے سے لگاکرگھر لاتے اور آہستگی سے اس کے بیڈ پر سلاتے کہ کہیں گڑیا رضیہ سلطانہ کی آنکھ نہ کھل جائے۔باپ اور ننھی بیٹی کے درمیان محبت کی ہزار ہا رنگوں سے سجی دنیا میںیہ عام سی باتیں ہیں مگر میر ی پیاری بیٹی رضیہ سلطانہ ولد یاسین ملک تم کوئی عام دس سالہ بچی نہیں ہو۔ تمھارا بہادر باپ کوئی عام شخص نہیں وہ آزادی کی کھٹن راہوں کا مسافر ہے جس نے اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی زندگی میں پہلی بار اپنی دھرتی کی آزادی کے لیے جیل کاٹی ۔رضیہ سلطانہ تم ایک ایسے بہادر باپ کی بیٹی جس پر بہادری اور استقامت بھی فخر کرتی ہے۔ تم اپنے پیارے بابا کی رضیہ سلطانہ ہو جانتی ہو تمہارے جری والد نے تمہارا یہ نام کیوں رکھا؟ رضیہ سلطانہ جنوبی ایشیا پر حکومت کرنے والی واحد خاتون حکمران تھی۔

بہن بھائیوں میں سب سے بہادر تھی اس کے باپ کو اپنی رضیہ سلطانہ پر بہت مان تھا۔ پیاری بیٹی تم صرف ایک بہادر باپ کی بیٹی نہیں ہو تمہاری ماں بھی استقامت صبر اور بہادری میں اپنی مثال آپ ہے جس نے شادی کے 13 سالوں میں صرف آٹھ مہینے اپنے شوہریا سین ملک کے ساتھ گزارے۔کتنے برسوں سے ہجر کاٹتی تمھاری صابر اور حوصلہ مند ماں نے لانگ مارچ کرنے والوں سے اپیل کی تھی کہ خدا کے لئے اس بات کو سمجھیں یاسین ملک کو انڈیا کی عدالت سے 25 مئی کو سزا سنائی جانی ہے۔ کل کا دن سیاست کہ نذر نہ کریں۔ کل سب لوگ یاسین ملک کے لئے بطور اظہار یک جہتی نکلیں تاکہ دنیا کی توجہ اس ظلم کی طرف دلائی جا سکے۔ وہ اسے پھانسی کی سزا بھی دے سکتے ہیں یہ کہہ کر تمہاری بہادر ماں پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی تھی اس نے ہاتھ جوڑے تھے اور کہا تھا کہ یہ یاسین ملک کی نہیں کشمیر کی بیٹی ہے اس کا مان رکھیں ۔

مگر ہم شرمندہ ہیں کہ بیٹی کی التجا کا نام نہیں رکھ سکے۔ہماری لوک تہذیب میں دشمن کی بیٹی چل کر گھر کی دہلیز تک آجائے تو بڑوں بڑوں کے دل پگھل جاتے ہیں۔مگر جہاں دلوں کی جگہ پتھر رکھے ہوں۔ میری پیاری رضیہ سلطانہ! تم ابھی بہت چھوٹی ہو شہر سیاست کے مکر وفریب نہیں سمجھتی کہ یہ سیاست دان ایسے ڈرامے نہ کریں تو ان کے سیاسی وجود خطر ے میں پڑجائیں ۔

سو انہوں نے 25 مئی مجاہد کشمیر یاسین ملک کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کی بجائے جلاؤ گھیراؤ اور سیاست گری کی ہنگامے کو تر جیح دی ۔ یہ اس عظمت کی پہچان نہیں رکھتے جس عظمت کے پہاڑ پر تمہارا بہادر باپ یاسین ملک سر اٹھا کر کھڑا ہے۔ان لوگوں کے نام تاریخ میں فراموش کردیے جائیں گے اور تمہارا بہادر باپ داستانوں میں زندہ رہے گا۔ آنے والی نسلیں اس کی بہادری اور استقامت پر فخر کریں گی!! ٭٭٭٭٭

Comments

Click here to post a comment