میرے باقاعدہ قاری جانتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے کئی ہفتے قبل ہی میں فریاد کرنا شروع ہوگیا کہ مذکورہ عمل سے اجتناب برتا جائے۔عمران حکومت کو ’’جھٹکا‘‘ دینا ہی درکار تھا تو ان دنوں کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف یہ تحریک پیش کردی جاتی۔
خفیہ رائے شماری کی بدولت موصوف کے خلاف آئی تحریک اگر کامیاب ہوجاتی تو عوام کو یہ خبر بھی مل جاتی کہ عمران خان صاحب قومی اسمبلی میں اکثریت کے حامل نہیں رہے۔ وہ ایک بار پھر اس ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کو مجبور نہ بھی ہوتے تو جون کا انتظار کیا جاسکتاتھا جب اگلے مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے پیش ہونا تھا۔ ٹی وی سکرینوں کے ناقابل ٹھہرائے جانے کے بعد اخباری کالموں تک محدود ہوئے صحافی کی رائے کو تاہم ان دنوں کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔ تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ سوچنے والے ویسے بھی بہت قدآور سیاست دان تصور ہوتے تھے۔1988سے 2018تک حکومتیں بنانے اور گرانے کے کھیل میں شامل رہے ہیں۔انہوں نے اپنے تجربے اور بصیرت پر اعتبار کیا۔اس کے بعد جو ہوا تاریخ ہے۔اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کرنے کے بعد ماضی کی اپوزیشن جماعتوں نے ’’بھان متی کے کنبے‘‘ کی طرح نئے انتخاب کا اعلان کرنے کے بجائے شہباز شریف صاحب کی قیادت میں ’’حکومت‘‘ چلانا چاہی۔ 5ہفتے گزرجانے کے باوجود وہ مگر طے نہیں کر پائی کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافے کا اعلان کرنا ہے یا نہیں۔آئی ایم ایف مذکورہ اضافے کا تقاضہ کررہی ہے۔ وہ نہ ہوا تو پاکستان کو ’’امدادی رقم‘‘ کی قسط بھی نہیں ملے گی۔ یہ قسط اگرچہ 500ملین ڈالر تک محدود ہے۔ اس کی ادائیگی تاہم عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کی جانب سے جاری ہوا ’’سر ٹیفکیٹ‘‘ تصور ہوتا ہے۔وہ مل جائے تو عالمی منڈی کے دیگر ادارے ہمیں قرض دینے سے قبل سو بار نہیں سوچتے۔عمران حکومت کی جگہ آئے ’’سیانے‘‘ اس ضمن میں فوری اقدام مگر لے نہیں پائے۔
انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں یکمشت 30روپے کا اضافہ ہوا تو عوام بلبلااٹھیں گے۔ اس سے مشتعل ہوکر وہ سڑکوں پر نہ بھی آئے تو آئندہ انتخاب کے دوران کم از کم پنجاب میں جو مسلم لیگ (نون) کا گڑھ شمار ہوتا ہے اس جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کی صورت دیکھنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوگا۔ ’’ووٹ بینک‘‘ کے خوف سے مفلوج حکومت بروقت کڑے فیصلوں کا اعلان نہ کر پائی تو بازار میں مندی کا رحجان پھیلنے لگا۔امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر تاریخی حد تک گرنا شروع ہوگئی۔شہباز حکومت نے کئی دنوں تک پھیلی مشاورت کے بعد عوام کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے عذاب سے بچانے کے لئے اپنے تئیں ایک ’’جگاڑ‘‘ سوچی ہے۔وہ عوام کے روبرو نہیں لائی گئی۔ آئی ایم ایف کا وفد مگر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اس کا جائزہ لینے پہنچ چکا ہے۔امید باندھی گئی تھی کہ وہ ’’جگاڑ‘‘ پر ہمدردانہ غور کو آمادہ ہوجائے گا۔
بدھ کی شام مگر سپریم کورٹ نے طویل وقفے کے بعد ازخودنوٹس لیتا ہوئے شہباز حکومت کے پسینے چھڑوادئیے ہیں۔اس پر الزام لگا ہے کہ وہ حکمران اتحاد میں وزیر اعظم سمیت دیگر جماعتوں کے سرکردہ رہ نمائوں کو بدعنوانی کے سنگین مقدمات میں سزا سے بچانے کے لئے مبینہ طورپر تفتیشی اداروںکے متحرک افسروں کو تبدیل کررہی ہے۔ان اداروں کے ’’ریکارڈ‘‘ میں گڑبڑ کرنے کے ارادے بھی ہیں۔منگل کی شام کوہاٹ میں ہوئے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب مذکورہ الزامات کو جارحانہ انداز میں ہمارے روبرو لائے تھے۔سپریم کورٹ بدھ کی شام ان ہی کی درخواست پر ازخود نوٹس لیتی محسوس ہوئی۔جمعرات کو اس کی سماعت بھی ہو چکی ہے بالآخر فیصلہ جو بھی آیا اس نے حکومت کو خطاوار نہ بھی ٹھہرایا تو اس مقام تک پہنچنے سے قبل ہی شہباز حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والاماحول بن جائے گا۔وہ ’’افراتفری‘‘ لوٹتی نظر آئے گی جس کا سامنا نواز حکومت کو اپریل 2016میں پانامہ پیپرز کی وجہ سے لئے ازخود نوٹس کی وجہ سے کرنا پڑا تھا۔
سوال اٹھتا ہے کہ ایسی حکومت کے نمائندوں کو آئی ایم ایف کے نمائندے سنجیدگی سے کیو ں لیں۔ پاکستان سے معاملات قطعی انداز میں طے کرنے کے بجائے عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ بلکہ انتظار کرنے کو ترجیح دے گا کہ شہباز حکومت برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ وہ اگر مستعفی ہوگئی تو عبوری حکومت سے معاملات طے کرنا بھی دانش مندانہ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف ہی نہیں دیگر عالمی ادارے اور پاکستان کے دوست یا دشمن ممالک ترجیح دیں گے کہ انتخابات کے نتیجے میں ہمارے ہاں برسرِ اقتدار آنے والوں کا انتظار کیا جائے۔
دریں اثناء محدود آمدنی کا حامل عام پاکستانی ہوتے ہوئے آپ کو اطلاع یہ دینا ہے کہ بدھ کی دوپہر رحیم یار خان اور صادق آباد کی غلہ منڈیوں میں گندم کے ایک من کی قیمت 2,500روپے ریکارڈ ہوئی ہے۔اس میں مزید اضافہ یقینی ہے۔چند روز قبل لکھے ایک کالم میںآپ کو خبردار کیا تھا کہ رواں برس کے مارچ میں غیر معمولی گرمی کی وجہ سے گندم کا دانہ باریک رہ گیا ہے۔ایک ایکڑ میں اس کی وجہ سے 5سے 7من کم گندم پیداہوئی۔ ہمیں امید تھی کہ گندم کی کٹائی کے بعد ہم 28.89ملین ٹن گندم حاصل کرپائیں گے۔ہماری اجتماعی طلب اگرچہ 30.79ملین ٹن کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ بے رحم موسمی تبدیلی کی وجہ سے اب کی بار ہمارے ہاں گندم کی اجتماعی پیداوار 27کے ہندسے تک بھی نہیں پہنچ پائی۔ گندم کا ’’بحران‘‘ لہٰذا نمودار ہونے کو بے چین ہے۔ماضی میں ایسے بحرانوں کو ہم یوکرین سے ہنگامی بنیادوں پر گندم درآمد کرتے ہوئے ٹال لیا کرتے تھے۔ رواں برس کے فروری سے یوکرین مگر روس کے جارحانہ حملے کی زد میں ہے۔ اس کے وہ وسیع وعریض علاقے جو گندم کی کاشت کے لئے تاریخی اعتبار سے مختص ہوا کرتے تھے اب مسلسل بمباری اور ٹینکوں کی پیش قدمی کی زد میں ہیں۔روسی فضائیہ نے جان بوجھ کر ان بڑے گوداموں کو بھی تباہ کردیا ہے جہاں فاضل پیداوار ذخیرہ ہوا کرتی تھی۔
بے رحم موسمی تبدیلی اورروس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے گندم کا جو بحران نمودار ہورہا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے بھارتی حکومت نے اپنے ملک سے گندم کی برآمد پر کڑی پابندی لگادی ہے۔سرکاری گوداموں میں اجتماعی طلب کو ذہن میں رکھتے ہوئے گندم پیدا کرنے والے اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو چوکس کردیا گیا ہے۔منافع خوری کی ہوس میں ذخیرہ اندوزی کے عادی سیٹھوں کے گوداموں پر چھاپے بھی مارے جارہے ہیں۔
ہمارے پنجاب میں لیکن حمزہ حکومت ’’کہیں ہے اور نہیں ہے‘‘ والے مخمصے سے دوچار ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اور آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑی صوبے کے سرکاری افسروں کو علم ہی نہیں کہ ’’کس کی ماں کو ماسی کہیں‘‘ ۔سپریم کورٹ پر نگاہ ٹکائے مقامی انتظامیہ پیش قدمی سے گھبرارہی ہے۔تنخواہ دار اور محدود آمدنی والے پاکستانیوں کو مگر آٹے کے بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے آج ہی سے تیاری شروع کردینا ہوگی۔
تبصرہ لکھیے