وہ میرے بچپن کا دوست تھا بلکہ اتنے بچپن کا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے ارد گرد جن لوگوں کو دیکھا ان میں وہ بھی تھا. اس کا اصلی نام تو کچھ اور تھا لیکن پیار سے ہم سب اسے شیدا پکارا کرتے تھے. گاؤں کے دیگر بچوں کی طرح ہم دونوں بھی دن بھر گھر میں اور گھر سے باہر دوڑتے بھاگتے اور کھیلتے رہتے. وقت گزرا، ہم کچھ بڑے ہوۓ تو اسے پتنگیں اڑانے کا شوق پیدا ہوا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے ایک نشے کی صورت اختیار کر گیا. بہار کے موسم میں تو گاؤں کے اکثر لڑکے یہ کام کرتے ہی تھی لیکن شیدے کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ جون اور جولائی کے شدید گرمی کے دنوں میں بھی یہی کام کرتا تھا.
ہوتا یوں تھا کہ جب جون اور جولائی کے مہینوں میں دوپہر کا کھانا کھا کر تقریبا سارا گاؤں ہی سو جاتا بلکہ چڑیاں اور کوے تک آرام کرنے اپنے اپنے گھونسلوں یا درختوں کی ٹھنڈی شاخوں میں گھس جاتے اور فضا میں ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی تو شیدا اپنی پتنگ اور دھاگے کا گولہ لے کر چھت پر چڑھ جاتا. کیا منظر ہوتا تھا وہ بھی، ننگے پیر، بغیر قمیض کے جب وہ پتنگ اڑا رہا ہوتا تو ایک ہاتھ میں پتنگ کی ڈور کو کھینچ رہا ہوتا اور دوسرے ہاتھ میں ڈور کا گولہ تھام رہا ہوتا. جب بھی ناک سے نلی نکل کر ہونٹ تک آتی تو پوری کوشش کر کے نلی کو واپس ناک میں اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا اور اگر پھر بھی ناکام رہتا تو فورا ڈور والا ہاتھ پٹھا کر کے نلی صاف کر دیتا. اسی طرح وہ اپنے ماتھے کے پسینے سے بھی نمٹتا. زیادہ مسئلہ اسے اپنی شلوار کا ہوتا تھا. چونکہ اسے ناڑہ باندھنا نہیں آتا تھا لہذا اس کی والدہ اس کی شلوار میں ربڑ ہی ڈال دیتی تھیں تاکہ اسے بوقت ضرورت شلوار پہننے اور اتارنے میں سہولت رہے. جب وہ جوش جنوں میں پتنگ کو "چھکیاں" لگاتا تو اس کی شلوار تھوڑی سی نیچے کو سرک جاتی تھی لیکن اس کا جنوں اسے شلوار کی طرف توجہ نہ دینے دیتا. اگر کبھی خیال آ جاتا تو بعض اوقات شلوار اوپر کو کھینچ لیتا اور کبھی نظرانداز کر دیتا. چونکہ گھروں کی چھتیں مٹی، کاٹھ اور گھاس پھوس ڈال کر بنائی جاتی تھی لہذا کبھی کبھی چھت پر شیدے کے قدموں کی آواز یا پھر پتنگ کو دی گئی گالیوں کی آواز سے اس کے والدین کی آنکھ کھل جاتی. اللہ جنت بخشے اس کے والد اور والدہ کو، انتہائی مخلص اور اپنی اولاد سے شدید محبت کرنے والے تھے. وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آتے اور کبھی پیار محبت سے اور کبھی شور ککارا ڈال کر اسے پتنگ بازی سے روکتے، اسے ڈراتے کہ بیمار ہو جائے گا یا بے خیالی میں چھت سے نیچے گر جائے گا. وہ اسے چھت سے نیچے آنے کا کہتے رہتے مگر وہ پھر بھی باز نہ آتا تو تھک ہار کر اسے کہتے کہ کم از کم اپنی شلوار ہی کھینچ کر اوپر کر لے. لیکن شیدا بھی شیدا تھا. اپنی دھن کا پکا.
اور دھن یہی تھی کہ
چاہے ناک سے نلی نکلے' ماتھے پر پسینہ آ جائے یا پھر شلوار نیچے کو سرکے.
شیدا پتنگ اڑاتا رہے گا.
میں جب پاکستانیوں کو ایسے افراد اور جماعتوں کو ووٹ دیتے دیکھتا ہوں جو خود یا جن کے آباؤ اجداد پہلے مغلوں اور سکھوں کے اور پھر انگریزوں کے دور میں بھی ان کے سروں پر مسلط رہے. قیام پاکستان کے بعد بھی یہی لوگ ان کے ووٹوں کے حقدار ٹھہرے اور کم و بیش ستر سال سے مختلف صورتوں میں اس ملک اور قوم پر حکمرانی کر رہے ہیں بلکہ مزے لوٹ رہے ہیں. وہ جو نہ تو خود ان کے درمیان رہنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولادوں کو پاکستانیوں کی اولادوں کے ساتھ رکھنا، کھیلنا یا پڑھانا پسند کرتے ہیں. جن کی اپنی الگ دنیا ہے. یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستانیوں کو ان کے بنیادی حقوق مثلا امن و انصاف' تعلیم و صحت' روزگار تک فراہم نہیں کر سکے اور دنیا بھر سے قرضے لے کر خود کھاتے رہے، اور دنیا کو باور کرواتے رہے کہ پاکستانی قوم جاہل اور بھکاری ہے. آج کا پاکستانی کسی علاقائی یا بین الاقوامی عزت و وقار تو خیر ایک طرف، بنیادی انسانی ضروریات کے لیے بھی تڑپ رہا ہے. کچھ خیر خواہ اسے سمجھاتے ہیں کہ اپنے اور اپنی نسلوں کا ہی کچھ سوچیں اور ووٹ دیتے وقت اچھے اور باصلاحیت لوگوں اور جماعتوں کو ووٹ دیا کریں لیکن پاکستانی بھی پاکستانی ہیں. اپنا ووٹ نااہلوں' چوروں اور لٹیروں کو ہی دینا ہے خواہ یہ خود اور ان کی اولادیں ذلیل ہوتی پھریں. وہ اور ان کی اولادیں بھوک سے کلبلائیں، جسم ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہ ہو، علاج کی سہولت نہ ملنے پر تڑپ تڑپ کر مر جائیں. ٹرین کی پٹڑیوں پر لیٹ کر خودکشی کر لیں یا پھر خود کو آگ لگا کر خود سوزی کرنی پڑ جائے یا پھر اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی لخت جگر کو بیچنا یا قتل کرنا پڑ جائے. الغرض کچھ بھی ہو جائے، یہ بھی پھر پاکستانی ہیں، اپنی دھن کے پکے
ان کی دھن بھی یہی ہے کہ
چاہے ناک سے نلی نکلے' ماتھے پر پسینہ آ جائے یا پھر شلوار نیچے کو سرکے
یہ بھی پتنگ اڑاتے رہیں گے
تبصرہ لکھیے