انسان نے جب اس دنیا میں قدم رکھا اس نے اپنے اردگرد موجودہ چیزوں پر غوروفکر شروع کیا.پہلے پہل انسان درختوں کے پتوں سے جسم ڈھانپتا تھا ، پھل ،پھول ، پودے ، کچا گوشت کھا کر گزارا کرتا تھا.سفر کے لیے گھوڑے ، گدھے اور بیل کا استعمال کرتا تھا،لیکن وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا.
کہا جاتا ہے ضرورت ایجاد کی ماں ہے.اس نے اپنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوۓ نئ ایشاء ایجاد کیں.دو پتھروں کو ٹکڑا کر اس نے آگ سے گوشت پکانا سیکھا ، سفر کے لیے گاڑیاں ، ہوائی جہاز ایجاد کیے گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرنے لگا یہاں تک کے چاند تک رسائی حاصل کر لی.چند دہائیوں پہلے کی بات ہے (یکم) 1 جنوری ،1983ء میں انٹرنیٹ ایجاد ہوا.1990ء سے 6 اگست 1991ء کو ورلڈ وائیڈ ویب(www) ڈئزائن ہوئی۔http://info.cem.chلگ بھگ 2000ء کے بعد مختلف سائٹس معرض وجود میں آئیں.جن میں فیس بک ،انسٹاگرام،ٹوئڑ،ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں اور یہ دنیا انسانوں کی دنیا سے گولوبل ویلج /global village بن گئ.ہم ہر طرح کی معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کرسکتے ہیں ، عزیز و اقارب سے بات چیت کر سکتے ہیں.اس کا استعمال ، سکول ، کالجز ، آنلائن بینکنگ میں عام ہے.
حال ہی کی بات ہے کہ کرونا وائرس جیسی وباء نے جنم لیا جس نے انسانوں کو گھروں میں مقیم کر دیا.اسی دوران لوگوں نے آنلائن شاپینگز کیں.کپڑوں سے جوتوں تک ، کھانے سے سوئی تک ہر چیز آنلائن کی دنیا میں دستیاب تھی، اس سے آن لائن کاروبار کو فروغ ملا.ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں.ہمیں ہر چھوٹی بڑی خبریں، موسم کے احوال بھی سوشل میڈیا سے معلوم ہوتے ہیں.جہاں انٹرنیٹ کی دنیا نے ہماری زندگی سہل کی وہاں اس کا نقصان بھی ہمارے استعمال پر منحصر ہے.فیس بک ، ٹک ٹاک کا بےجا استعمال نے نئ نوجوان نسل کو اپنے شاکجنے میں جکڑا ہوا ہے۔
اس کے ذریعے ویڈیوز گیمز کے اشتہارات جیسے pubg, بلیو وہیل نے بہت تباہی مچائی ، جس میں دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے.روز نامہ جنگ میں خبر چھپی ہے کہ 14 سال پاکستانی بچہ جس کی والدہ اور بہن اسے pubg کھیلنے سے منع کیا اس بچے نے انہیں قتل کر دیا.آگۓ چلتے ہیں شہرت کے نشے میں غرق فرسٹ ایئر کے طالبعم عمار اور اس کے دوست پستول کے ساتھ ویڈیو بنا رہے تھے کہ ویڈیو بناتے ہوۓ دونوں جاں بحق ہوجاتے ہیں.بات صرف یہی ختم نہیں ہوجاتی سال 2019 میں بلیو وہیل گیم نے نا صرف پاکستان، بلکہ بھارت اور دیگر ممالک کے لوگوں کی جان لے لی.ایک عام سی خبر ہمیں ٹی وی ، نیوز چلینز ، فیس بک سے مل جاتی ہیں اور ہم بغیر تحقیق کیے اندھا دھند کسی بھی پوسٹ پر یقین کر لیتے ہیں.
داعش اور کالعدم تنظمیوں کے کاندے سوشل میڈیا کو دہشت گردی اور ملکی املاک استعمال کرنے کے کیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ مذہبی اشعار اور مقدسات کے نام کو لینے میں شرم محسوس نہیں کرتے.مخالفین کے پروپیکنڈوں نے ایک دوسرے کے لیے کدورتیں پیدا کردی ہیں.پاکستان میں سوشل میڈیا اکاونٹس کی تعداد 54 ملین سے زائد ہے.فیس بک استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 2.8 بلین ہے جبکہ ٹوئڑ استعمال کرنے والوں کی تعداد 396.5 ملین ہے.دن بہ دن فیس بک ، ٹوئڑ ، ٹک ٹاک نوجوانوں کی زندگی کا محور اور مرکز بنتا جارہا ہے.ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں ہر چھوٹے بچے کو ماں سنھبالنے کی بجاۓ اسے فون تھاما دیتی ہے مضبوط قومیں اس طرح نہیں بن سکتیں.
نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا:
"تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا"
انٹرنیٹ پر فخاش اور عیرانی پھیلانے کی اجازت نا دی جاۓ ، سوشل میڈیا پر نازیبا الفاظ کی ممانعت کی جاۓ.اسے مفید کاموں کے لیے مستعمل کیا جاۓ.بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاۓ تا کہ معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارا بن سکے.ہر فرد اپنی ذمہ داریوں سے آشنا ہو آخر میں بس یہ ہی کہوں گئیں اللہ اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔
تبصرہ لکھیے