ہوم << تارکینِ وطن کے لیے مخصوص سیٹیں - اسد اللہ غالب

تارکینِ وطن کے لیے مخصوص سیٹیں - اسد اللہ غالب

موجودہ حکومت اگلے الیکشن سے پہلے بعض ضروری انتخابی اصلاحات کرنا چاہتی ہے ،جن میں ممکنہ طور پر تارکین وطن کے لیے ووٹ کے حق کا خاتمہ ترجیحی فہرست میں شامل ہے ۔آگے بڑھنے سے پہلے میں یہاں یہ جتلا دوں کہ میں نے اپنے کالموں میں تارکین وطن کے ووٹ کے حق کے لیے مسلسل جدو جہد کی ہے ۔

میری یہ بھی رائے رہی ہے کہ تارکین وطن اپنے اپنے ملکوں میں سے ارکان اسمبلی کا چنائو کریں اس لیے کہ ایک تو ان کا ووٹ پاکستان کے مختلف حلقوں میں ریٹرننگ افسروں تک پہنچنے میں وقت لگ سکتا ہے ویسے میرے ذہن میں یہ نقشہ واضح نہیں تھا کہ وہ ووٹ کا حق استعمال کریں تو کیسے کریں ۔امریکہ میں پوسٹل بیلٹ کا طریقہ کار رائج ہے ،وہاں ڈاک کا نظام تیز رفتار بھی ہے اور شفاف بھی ،جبکہ پاکستان میں ڈاک کا حال یہ ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ صاحب کی ارسال کردہ کتابیں مجھ تک ایک ماہ بعد بھی نہیں پہنچ سکیں ۔ ان حالات میں لندن سے آسٹریلیا تک اور بر اعظم افریقہ سے لے کر بر اعظم امریکہ تک اور بر اعظم یورپ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک کے ممالک میں پھیلے ہوئے نوے لاکھ تارکین وطن کے ووٹ پاکستان میں کس طرح بھجوائے جائیں گے ۔

یہ ایکسر سائز ہمارے الیکشن کمیشن نے ابھی تک کی نہیں نہ ہی ہمارے سفارت خانوں اور کونسل خانوں کو اس ووٹنگ کے طریق کار کی تربیت دی گئی ہے ۔امریکہ میں پوسٹل بیلٹ کا طریق کار ضرور موجود ہے مگر حالیہ الیکشن میں ٹرمپ نے پوسٹل بیلٹ میں شدید دھاندلیوں پر احتجاج بھی کیا تھا ۔اگر امریکہ میں اس نظام کو شفاف نہیں رکھا جا سکتا تو پاکستان کا الیکشن کمیشن اس کی شفافیت کا کیسے دعویٰ کرپائے گا ۔میں نے چند روز پہلے سابق صدر آصف علی زرداری کی پریس کانفرنس سنی ہے جس میں انہوں نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق استعمال کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔

اس لیے اس کی جگہ حکومتی اتحاد یہ سوچ رہا ہے کہ تارکین وطن کے لیے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں مخصوص کردی جائیں ،جیسا کہ اس وقت خواتین کے لیے سیٹیں مخصوص کرنے کا طریقہ رائج ہے اور اس پر اطمینان بخش طریقے سے عمل بھی ہو رہا ہے ،زرداری صاحب نے واضح کیا کہ ان کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے پہلے لوگوں کو بیرون وطن ملازمتوں کے لیے بھجوایا تھا اس لیے ہم لوگ تارکین وطن کی بے حد قدر کرتے ہیں وہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں ،انہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا استعمال کرکے بیرونی ممالک میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے ۔وہ لوگ خود تو تکلیف کی زندگی بسر کرتے ہیں ،ایک ایک کمرے میں درجنوں افراد چٹائیوں پر لیٹ کر زندگی کے دن گزارتے ہیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرکے اپنی محنت کی کمائی پاکستان بھجواتے ہیںجس سے ہمیں قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے ۔

اس اپریل میں تارکین وطن نے تین ارب ڈالر بھجوائے ہیں جو کہ پچہتر برس میں ایک ریکارڈ ہے ۔زرداری صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بیرونی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن تارکین وطن کی ترسیلات سے ہم اپنی معاشی اور مالی مشکلات کو دور کرنے میں کامیاب ہیں ۔تارکین وطن کی خدمات کا ہر پاکستانی مداح ہے ،ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیرونی ممالک میں مقیم ہمارے بھائی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک ہیں ،وہ ترقی یافتہ ممالک اور مضبوط جمہوری نظام میں تربیت پاتے ہیں ۔ہمارے ڈاکٹر انجینئر معاشی اور انتظامی ماہرین ہمارے لیے اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جب بھی کوئی پاکستان میں نئی حکومت بنتی ہے تو بیرون ملک سے کئی ٹیکنو کریٹ مشاورت کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں ،مشرف دور میں شوکت عزیز نے طویل عرصے تک پاکستان میں خدمات انجام دیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔عمران دور میں بھی کئی تارکین وطن کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ زرداری صاحب نے جو تجویزپیش کی ہے وہ بے حد معقول ہے اور قابل عمل بھی ۔

اس سے تارکین وطن کو بھی ضرور اطمینان حاصل ہوگا کیونکہ صرف ووٹ کا حق ملنے سے وہ ملکی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتے ،ویسے بھی دور دراز ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے اپنے حلقے کے امیدواروں کی صلاحیتوں کا کیسے اچھی طرح علم ہو سکتا ہے ۔یہاں تو ہر الیکشن میں نئی پود امیدوار کے طور پر سامنے آجاتی ہے ،جو پاکستانی کبھی اپنے حلقوں میں سال ہا سال سے واپس نہیں آئے وہ نئے امیدواروں کی جانچ پرکھ کیسے کر سکیں گے ۔انہوں نے اگر ووٹ ڈالا بھی تو یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہو گا ۔اس پس منظر میں آئینی ترمیم سے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں تارکین وطن کے لیے سیٹیں مخصوص کردی جائیں اس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کو براہ راست پاکستان کے مختلف ایوانوں میں بیٹھنے کا موقع ملے گا اور وہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر سکیں گے ۔

جہاں تک مشینی ووٹنگ کا تعلق ہے اسے بیرونی ممالک میں استعمال کرنا تقریبا نا ممکن ہے ،شاید اتنی مشینیں پاکستان میں استعمال نہ کی جائین جتنی بیرونی ممالک میں بھیجنے کی ضرورت پڑ جائے ۔ویسے بھی بیرونی ممالک سے مشینی ووٹنگ کو شمار کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا ۔اس پس منظر میں مخصوص سیٹوں والا نظام ملک کے مفاد میں بھی ہے اور تارکین وطن کے مفاد میں بھی ہے ،اسے بخوشی قبول کرنا چاہئے ۔

Comments

Click here to post a comment