لاہور: مسلم لیگ (ن) کے 4 منحرف ارکان اگر اپنی جماعت کو ووٹ نہ دیں اور تحریک انصاف کے 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد مقابلہ 172 اور 172 کا ہوجائے گا، اور ایک ووٹ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کا ہوگا، وہ جسے ووٹ دیں گے وہی وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوجائے گا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے ججز نے فیصلہ دیا تھا جس کے مطابق منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں سیاسی و آئینی ہلچل میں اضافہ ہوگیا ہے، اور ذرائع کا کہنا ہے وزیراعلی کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگی، کیوں کہ نمبر گیم میں حکومت اور اپوزیشن کا پلڑا برابر ہونے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ایک مرتبہ پھر نمبر گیم اہمیت اختیار کر گئی اور اس میں ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی سردار دوست محمد مزاری کا کردار اہم ہوگیا، اور وہ وزیراعلی کے انتخاب میں فیصلہ کن اہمیت اختیار کر گئے ہیں، کیوں کہ وزارت اعلیٰ کے لئے ہونے والی ووٹنگ میں حکومت اور اپوزیشن کا پلڑا برابر ہونے کا امکان ہے جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا، وہ جس کو ووٹ دیں گے وہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائر ہوجائے گا۔
رپورٹ ہے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے اور تحریک انصاف کے 25 ارکان کی نااہلی کے بعد پنجاب کا ایوان 346 ارکان پر رہ جائے گا، جب کہ ن لیگ کے منحرف ارکان پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ نہیں ڈال سکیں گے، اور تحریک انصاف کے 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے پر گولڈن فگر 186 کسی کے پاس نہ ہوگا، اس طرح ایوان میں عددی اکثریت 173 لینے والا ہی وزیراعلی پنجاب ہوگا۔
ذرائع کے مطابق ایوان میں مسلم لیگ (ن) 165 کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، جب کہ اس کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے 7 ارکان ہیں، آزاد ارکان 4 اور راہ حق پارٹی کا 1 رکن شامل کیا جائے تو موجودہ حکومتی اتحاد 177 ارکان پر مشتمل ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کو نکال کر ارکان کی تعداد 157 اور اس کی اتحادی مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں، تاہم تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کے نااہل ہونے سے اسپیشل نشستوں پر پی ٹی آئی کے 5 نئے ارکان ایم پی اے بن جائیں گے اور اسمبلی میں موجودہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 172 ہوجائے گی، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری اور چوہدری نثار نے وزیر اعلی کے انتخاب میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا، پھر بھی موجودہ صورتحال رہنے پر بھی حکومتی اتحاد کو نئے انتخاب میں 5 ووٹ کی برتری ہوگی.
لیکن اگر مسلم لیگ (ن) کے 4 منحرف ارکان اپنے نامزد وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کو ووٹ نہیں ڈالتے تو صورتحال دلچسپ ہو جائے گی اور حکومت اور اپوزیشن کے 172 ، 172 ارکان برابر ہوجائیں گے، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا، اگر ووٹنگ کے لئے ہوئے گزشتہ اجلاس کی صورتحال کو دیکھا جائے تو ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے اور اگر ایسا ہوا تو حمزہ شہباز ایک بار پھر وزیراعلی منتخب ہوجائیں گے۔
تبصرہ لکھیے