چولستانی فنکار فقیرا بھگت فن کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے ۔1959ء میں چولستان میں پیدا ہوا،چولستان کی فنکارہ آڈوبھگت سینئر سے تعلیم حاصل کی ،بہت سے اعزازات حاصل کئے ، دنیا کے کئی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ 11مئی 1999ء کو یرقان کے موذی مرض سے ان کی وفات ہوئی ۔
برسی کی تقریب چولستان میں ہر سال ہوتی ہے ۔ میں کئی سالوں سے نہیں جا سکا تھا ،اس سال چولستان میں قحط کی کیفیت ہے ، اسی بناء پر جانے کا فیصلہ کیا کہ آنکھوں دیکھا حال بیان کر سکیں ۔عالمی شہرت یافتہ چولستانی فنکار فقیرا بھگت کی 23 ویںبرسی کی تقریب بستی فقیرا بھگت چک نمبر184/7-Rتحصیل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں تھی ،ملتان سے میرے ساتھ سرائیکی رہنما ملک جاوید چنڑ ، شریف خان لاشاری ، پروفیسر پرویز قادر خان اور سرائیکی سنگر ثوبیہ ملک تھیں۔ براستہ سی پیک دوپہر کو شیر شاہ انٹرچینج سے روانہ ہو کر ڈیڑھ گھنٹہ بعد ترنڈہ محمد پناہ انٹرچینج پر اتر گئے ۔ ترنڈہ سے ہوتے ہوئے چنی گوٹھ اور جندوپیر کمال میں معروف سرائیکی شاعر صوفی نجیب اللہ نازش کی عیادت کیلئے رکے وہاں معروف سنگر اجمل ساجد اور سرائیکی شاعر پروفیسر خالد نجیب سے ملاقات ہوئی ،’’توں تاں وفا کریں ہا، زندگی تاںبے وفا ہے ‘‘جیسے لافانی شعر لکھنے والے صوفی نجیب اللہ نازش عرصہ سے علیل ہیں ۔
بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں کمشنر بہاول پور اور اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ان کو پھول پیش کئے اوران کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔ صوفی نجیب اللہ نازش صاحب سے ملنے کے بعد ہمارا لیاقت پور میںقیام سرائیکی رہنما لالہ اقبال خان بلوچ کے ہاں تھا ،انہوں نے ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا ۔ وہاں سے ان کے ساتھ چولستان کی طرف چل پڑے ۔ لالہ اقبال خان آگے اور ہم پیچھے ۔فیروزہ جسے چولستان کا گیٹ وے کہا جاتا ہے ، سے چولستان داخل ہوئے ۔لالہ اقبال نے راستے میں ایک شخص سے راستہ پوچھا ، غلط راستہ بتایا گیا جس کے باعث ہم بھٹک گئے اور چولستان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر پچاس ساٹھ کلو میٹر اضافی سفر پڑ گیا ، اڑھائی تین گھنٹے لگ گئے اس دوران میں سوچ رہا تھا کہ خبریں آتی ہیں کہ فلاں آدمی چولستان میں راستہ بھٹک کر مر گیا ، ابھی تو ہم آباد روہی میں موجود ہیں اور بڑی روہی جسے گریٹر ڈیزرٹ کہتے ہیں وہاں بھٹکنے والوں کی کیا حالت ہوگی ۔
بڑی مشکل سے تقریب میں پہنچے تو سپیکر پر اعلان ہو رہا تھا کہ سرائیکی تریمت سانجھ کی سربراہ اَدی عابدہ بتول کی قیادت میں قافلے نے پہنچنا تھا مگر ان کا قافلہ قلعہ بجنوٹ کے آس پاس گریٹر چولستان میں بھٹکا ہوا ہے ۔چھوٹی خوشیاں بڑے غم، تقریب میں خواتین اور بچے بھی مرجھائے چہروں کیساتھ موجود تھے۔ تریمت سانجھ دراصل خواتین کی انجمن ہے جو کہ خواتین کی بہبود کے لئے کام کرتی ہے ،عابدہ بتول کا تعلق چولستان کے علاقہ محراب والا سے ہے ۔ان کے شوہر نذیر لغاری کا پاکستانی صحافت میں بڑا نام ہے ۔ان کے بھائی انجم لاشاری مرحوم ایک اخبارکے سب ایڈیٹر اور بہت بڑے شاعر تھے ، عابدہ بتول کے والد سفیر لاشاری کا ادب کی دنیا میں نام ہے ۔کئی کتابوں کے مصنف اور فوج میں صوبیدار تھے ۔ ان کی پاکستان کیلئے عظیم خدمات ہیں ،سرائیکی تریمت سانجھ چولستانیوں تک ٹینکروں کے ذریعے پانی پہنچا رہی ہے اور پیاس سے مارے چولستانیوں کو ریسکیو کر رہی ہے۔
دوسرے دن قافلے کے رکن اعجاز بلوچ سے میں نے پوچھا کہ آپ کہاں رہ گئے تو اعجاز بلوچ نے کہا کہ قلعہ بجنوٹ کے ساتھ چوکی پر ہمیں روک لیا گیا اور دواڑھائی گھنٹے پوچھ گچھ کی جاتی رہی ، ہمارے کاغذات ، شناحتی کارڈ، گاڑی کے کاغذات وغیرہ چیک کرنے کے بعد بھی ہمیں بٹھائے رکھا حالانکہ ادی عابدہ نے ان کو اپنے والد کی خدمات بارے بتایا مگر پھر بھی ذہنی اذیت دی گئی ۔70-80کلو میٹر سفر کے بعد آبادی کے چکوک میں پہنچے اور وہاں سے پانی تیل اور خوراک حاصل کی ،اس وقت تک صبح ہو چکی تھی ۔ اسی بناء پر ہم فقیرا بھگت کی تقریب میں نہ پہنچ سکے ۔ اعجاز بلوچ نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران ہمیں چولستان میں حکومت کی طرف سے کوئی امدادی ٹیم نظر نہ آئی ۔ میں ذکر کر رہا تھا فقیرا بھگت کی برسی کا ،وہاں پہنچے تو بہت بڑا اجتماع تھا ، ہندو مسلم چولستانی اور غیر چولستانی سب آئے ہوئے تھے ۔ عاشق خان بزدار ،منظور خان دریشک ، سردار نعیم خان ڈاہا،راشد عزیز بھٹہ سمیت سرائیکی رہنما کثیر تعداد میں موجود تھے ۔
شاعر ، ادیب ، دانشور ، فنکار اور گلوکار کثیر تعداد میں وہاں موجود تھے ۔جب ہم پہنچے تو مقررین کا خطاب جاری تھا ،سب سے بڑا موضوع چولستان میں خشک سالی اور انسانی زندگیوں کا المیہ تھا ، چولستان میں زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں ۔ وزیر اعظم کو پرواہ نہیں ، کتنے دکھ کی بات ہے کہ اقتدار کی رسہ کشی کیلئے اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں مگر انسانی المیہ کی کسی کو پرواہ نہیں۔مقررین کا کہنا تھا کہ عمران خان نے افغانستان کو گندم اور نقد امداد بھیجی مگر چولستان کیلئے ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔مقامی رہنمائوں نے کہا کہ چولستان میں جیپ ریلی اور شکار کیلئے امراء اور شہزادے چلے جاتے ہیں مگر چولستانیوں کی زندگیاں بچانے کیلئے کوئی نہیں آ رہا ۔ حکومت کو کرسی اور اقتدار کی لڑائیوں سے فرصت نہیں۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ ارکان اسمبلی کی خاموشی قابل مذمت ہے ۔یہ لوگ لوٹا بننے میں دیر نہیں کرتے ہمیشہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتے آ رہے ہیں ۔ چولستان میں موت رقص کر رہی ہے مگر ارکان اسمبلی خاموش ہیں ۔مقررین نے مطالبہ کیا کہ چولستان کو آفت زدہ قرار دیا جائے اور بلوچستان کی طرح آغازِ حقوق چولستان انائوس کیا جائے ۔
تبصرہ لکھیے