عشق کی آگ میں زویا جُلس رہی تھی. دل آتش فشاں لاوے کی طرح پھٹ رہا تھا. آنسو اس کے خلق میں پھنسے ہوۓ تھے. وہ نظریں جھکاۓ خود کو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی. خشک ہونٹوں پے زبان پھیرتے ہوۓ بآخر بولی. آپ پر منحصر ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں.
مقدر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے. اسد نے چاۓ کا کپ لبوں سے لگایا اور گہری سانس لی. شاید وہ بھی اسی کیفیت سے دو چار تھا.کچھ کہنے کے لیے کچھ سننے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا تھا. وہ کس کرب سے گزر رہی تھی شاید اس سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا.وہ نرم دل لڑکی پتھر کے بت کی مانند ہوگئی تھی. اے دل بےقرار! کہاں ہے تیرے مرض کا علاجدونوں انجان مسافر اپنی اپنی منزل طے کرنے لگے. بادل روز سے گرجے ، بارش شروع ہوچکی تھی.آنکھوں میں لگا کاجل پھیل چکا تھا.بارش کی بوند کو پکڑنے کی کوشش کرتی لیکن بارش کے قطرے ہاتھ سے پھسل کر زمین پے جاگرتے.
بارش کی طرح اس کے جذبات بھی تھام چکے تھے، سارا احساسات بارش کے پانی میں بہہ چکے تھے. سر جھکاۓ وہ چلتی جارہی تھی راستے میں ایک چھوٹا سےپتھر پر اس نے پوری قوت سے پاوں مارا جو ندی میں جاگرا. پاس ہی سے اسے آواز آئی..... حق اللہ.... حق اللہ..... حق اللہ..... دنیا کی سب محبتیں فانی ایک تیرا ہی نام رہے گا باقی.... حق اللہ. حق اللہ کی صدا لگاتے ہوۓ بابا جی رُکے. پتر! پانی کا بہاو بہت تیز ہے پھسل نا جاویں. مجھے جینے کی کوئی تمنا نہیں وہ بےزاری سے بولی. ایک مسکراہٹ ان کے چہرے پر ابھری اور کہنے لگے پتر! بڑی بےسکون لگ دی ایں. قرآن پڑھایا کر. ہر درد کا علاج ہے ، ہر مرض کی شفا ہے اس میں. باباجی پھر سے صدا لگاتے ہوۓ اپنی منزل طے کرنے لگے حق اللہ.... حق اللہ...... حق اللہ..... گھر پہنچتے ہی زویا نے خود کو کمرے میں مقیم کر لیا.
بےسکونی بڑھتی جارہی تھی اور نیند اس پے طاری ہوگئ. باباجی کی باتیں اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھیں. زویا ہربھڑا کر اٹھی تجہد کا وقت ، آسمان نیلا تھا. باوضو ہوکر اس نے قرآن پڑھا. قرآن کی آیات پڑھتے پڑھتے وہ روکی.دل روز سے دھڑک رہا تھا. " پھر جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوۓ ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے." وہ قرآن کو دل سے لگاۓ مسلسل روتی رہی.وہ گمراہی کےسفر پر تھی." قرآن کے سیاہ حروف دل کی سیاہی کو مٹا دیتے ہیں." وہ اپنے رب کو جاننے میں لگ گئی تھی.جس کی محبت سے وہ نا آشنا تھی.
تبصرہ لکھیے