کومل چاۓ کا گھونٹ بھرتی اور اخبار کے صفحات پلٹتی اس کی نگاہیں اخبارپہ جمی ہوئی تھیں،اسے ایک نئی آپرچنٹی کا انتظار اور ایک نئی نوکری کی تلاش تھی،وہ اپنی تعلیم اوروقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔اباجان نے گلہ کھنکھاڑا،مل جاۓ گی بیٹا نوکری کی تم فکر کیوں کرتی ہو۔
اس نے ایک گہری سانس لی،یہ جملہ گزشتہ کئی ماہ سے وہ سنتی آرہی تھی۔اس کے والد اس کے برابرمیں آکربیٹھ گۓ،بیٹا اللہ پہ توکل رکھو۔یہ سنتے ہی اس کے ماتھےپہ بل پڑگۓ،کس توکل کی بات کررہےہیں آپ ابا،دردر کی خاک چھانی ہے میں نے لیکن کہیں سے جواب نہیں آیا اور اگرکوئی انڑویو کے لیے بلا لے تو بھی انہیں لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کے پاس پہلے سے کوئی تجربہ ہو۔مجھے سمجھ نہیں آتی تجربہ آخر کہاں سے آۓ گا،وہ آگ بگھولا ہورہی تھی اگرآپ میری بات انکل محد سے کرتے تووہ فورا مان جاتے آخر آپ انہیں کیوں نہیں کہتے۔
یہ سن کر والد صاحب کی گردن جھک گئی اور بولےبیٹا توکل رکھو اللہ کے ہاں نہ دیرہے نہ اندھیر۔منصب صاحب کی بیگم اپنی بیٹی کی طرف داری کرنے لگیں،دیکھیں منصب صاحب! میری زندگی تو اسی دن اندھیر ہوگئی تھی جس دن آپ کے ساتھ بیاہ کرآئی تھی،آپ نے ہمیشہ ہمیں توکل کا جھنڈ دکھا کرہمیں خوشیوں سے محروم رکھا ہے،کسی سے سفارش کی بات کرلیں آپ کے تو بہت تعلقات ہیں۔منصب صاحب نے نہ آو دیکھا نہ تاوفورا اٹھ کرچلے گۓ،شاید یہ توکل ہی تھا جو وہ خاموشی سے اٹھ کرچلے گۓ کیونکہ جب انسان خاموش ہوجاتا ہے توپھرقدرت جواب دیتی ہے۔
رات کے تیسرے پہرجب کومل اپنے کمرے میں سورہی تھی اسے محسوس ہوا کوئی ہچکیوں کے ساتھ مسلسل رو رہا ہے،وہ اٹھی کیا دیکھتی ہے ابا سجدےمیں پڑے ہوۓ ہیں اور اپنے اہل وعیال کےلیےخیرمانگ رہے تھے،کومل نےافسوس اور بےچارگی کی نگاہ والد پہ ڈالی،یہ سفارشوں اور پیسوں پہ چلنے والے دنیا ابا دعاوں سے کہاں چلتی ہے،یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے اپنے الفاظ واپس بھی لینے پڑ سکتے ہیں۔صبح کی سنہری کرنیں ہر سو پھیل چکی تھیں،وہ آج بھی اخبار میں نوکریاں تلاش کرنے میں مصروف تھی،اچانک اس کا فون بجا،اس نے فون اٹھایا:"مس کومل یورآرہائیرڈ،آپ کل سے ہماری کمپنی کوجوائن کرسکتی ہیں؟
" وہ اب تک سکتے میں تھی،اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آرہا تھا، اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں،کومل کی حالت دیکھ کریوں محسوس ہورہا تھا جیسےکسی کا انتقال ہوگیاتھا،شاید اس کے ضمیرکا جب اس نےاللہ پہ توکل کرناچھوڑ دیا تھا جیسے ہی ابا گھرآۓ ، کومل نے فورا معافی مانگی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
تبصرہ لکھیے